• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللّٰہ کرے، سپریم کورٹ کی دی گئی مہلت کا فائدہ اٹھا کر پی ٹی آئی اور حکومت عدلیہ کی دکھائی بنائی گئی راہ ’’ایک ہی روز/ مرتبہ ملکی عام انتخابات کے انعقاد‘‘ کے شیڈول پر اتفاق کرلیں، آمین۔ شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کے انعقاد کیلئےاپنا ناگزیر تعاون فراہم کرنے کے آئینی پابند ریاستی اداروں کی انفرادی اور مجموعی سکت جس طرح آشکار ہوتی جا رہی ہے اور یہ جس طرح عدلیہ کی سماعتوں میں اپنی مجبوری اور بے بسی کو اپنے تئیں واضح کر رہے ہیں اس سے تو متحارب انتخابی سیاسی فریقین کے ایک الیکشن شیڈول پر متفق ہونے کے بعد بھی ’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘ کے مصداق انتخاب کے انعقاد کا معاملہ تو پھر لٹک جائے گا۔ یہ عجب اور سخت مایوس کن ڈیڈ لاک ہوگا جس سے پاکستان کی موجود حیثیت اپنے عوام اور دنیا کی نظر میں بہت نیچی ہو جائے گی۔ گویا بند گلی سے نکلنے کیلئے سارا انحصار اب متذکرہ دعا پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔ گویا پولنگ مینج کرنے کیلئےمعاون اداروں کے تعاون کیلئے پھر پاپڑ بیلنے ہیں، جو عدلیہ کے سامنے پہلے ہی سراپا معذوری ہیں۔ مزید اگر سیاسی جماعتوں کے کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں الیکشن کے مطلوب انعقاد پر اتفاق کی بیل منڈھے چڑھنے پر سپریم کورٹ نے متعلقہ ریاستی اداروں سے ناگزیر روایتی تعاون دلانے کی بھی کوئی صورت نکالی بس تو الیکشن ہو جائیںاور ملک سیاسی بحران سے نکل جائے گا وگرنہ آئینی تقاضے کے مطابق عدالتی فیصلے کی من وعن عملداری ہوگی جو موجود گھمبیر آئینی، معاشی اور انتظامی بحران میں غصب ہوتے عوام الناس کے حق بالغ رائے دہی اور بنیادی انسانی حقوق کے حصول اور تحفظ کا معاملہ ہے۔ واضح رہے ہر شہری کو اس کی گارنٹی آئین پاکستان دیتا ہے۔یہ تو اب مکمل ثابت شدہ ہے کہ جملہ انواع کے جاری سنگین بحران کی جڑیں قومی سیاست میں پی ڈی ایم کے لیے پے در پے پولیٹیکل ڈیزاسٹر ہیں، سست ہی سہی لیکن کچھ نہ کچھ نتائج دیتااور عوام کو ایک حد میں سیاسی عمل کا شریک بناتا سیاسی قومی دھارا پی ڈی ایم حکومت کے جیسے تیسے تسلط کے بعد عمران حکومت کے خلاف مسلسل فسطائیت کا باعث بنا ہوا ہےجس سے سماجی اور اس سے معاشی بحران گھمبیر سے گھمبیر ہوتا گیا۔اولی گارکی (پی ڈی ایم لوٹوں کی) کی سخت منفی سیاست نے محدود اور نحیف سیاسی جمہوری ارتقائی عمل کو حکومت اکھاڑنے کی بڑی غیر ذمے دارانہ سیاسی مہم جوئی اور مسلسل مچائی سیاسی دھما چوکڑی سے جامد کر کے رکھ دیا۔ پنجاب میں بڑی تیاری اور آئے دن پی ٹی آئی کی دونوں صوبائی خصوصاً پنجاب کی حکومت پر پی ڈی ایم کی ’’چمک حملوں‘‘ کی تیاری اور دوبڑے حملوں سے تنگ آ کر عمران خان کو یہ سوجھی تو خوب کہ مقبولیت کےسمندر میں تیرتے دونوں غیر محفوظ صوبائی حکومتوں کو مکمل آئینی گنجائش کے مطابق خود ہی تحلیل کرکے فریش اور یقینی ملتے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ 5 سال کیلئے مستحکم صوبائی حکومتیں کی جائیں۔ چھپن کامیاب جلسوں کے بعد راولپنڈی کے اختتامی جلسے میں خان اعظم کے چونکا دینے والے اس انوکھے اعلان پر پی ڈی ایم تو کیا خود پی ٹی آئی کے رہنمائوں، کارکنوں اور عام لوگوں کو بھی یقین نہ آیا کہ ایسا بھی کیا جاسکتا ہے، کیا تو خان اور پرویز الٰہی میںٹھن جائے گی،پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جائے گی۔ سو پی ڈی ا یم طنزاً یہ کہتی رہی کل کےبجائے آج اسمبلیاں توڑو ہم فوراً الیکشن کرا دیں گے۔ پی ڈی ایم نے کسی طور اسے غیر آئینی یا غیر جمہوری و سیاسی قرار نہ دیا بلکہ اس کے رہنما بار بار یہ کہتے سنے گئے کہ عمران ایسا کبھی نہیں کرے گا۔ بہت جلد اسے اس پر بھی بڑا یوٹرن لینا پڑے گا۔ خان نے جو کہا کر گزرا، اندازوں کے برعکس چودھری پرویز الٰہی نے پہلے تو عمران کوسمجھایا روکا، لیکن بالآخر وفا نبھانے کی ٹھان لی اور نبھا کر مشرف بہ پی ٹی آئی کیا ہوئے پارٹی کی صدارت سے نواز دیئے گئے۔

پاکستا ن میں دولت راج (اولا گارکی) سیاست کا بہت دلچسپ چیپٹر تیار ہوا کہ پنجاب اور خیبر کی اسمبلیاں تحلیل ہوتے ہی پہلے سے الیکشن سے گھبراتا پی ڈی ایم سخت خوفزدہ ہوگیا اور اس نے آئین اور اب عدالت سے بھی لڑنے بھڑنے کی ٹھان لی۔ جیسا کہ پی ڈی ایم کے آرکیٹیکٹ مولانا صاحب آئینی عدالتی فیصلے کو ججوں کے ہتھوڑے سے تعبیر کرکے مجوزہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلئےفوراً فرنٹ پر آگئے۔ گویا عمران خان اپنی صوبائی حکومتوں کے خاتمے سے پی ڈی ایم کو ایک تو اپنی جماعت کے خلاف فسطائیت کے دائرے میں لے آئے اوپر سے وزیراعظم نے لنگڑی پارلیمان کے ایک دھڑے اور ٹی وی پر آئے پی ڈی ایم ترجمانوں کو کھلم کھلا آئین سے لڑنے بھڑنے کی طرف لگا دیا۔ اتنا کہ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ جیسے نامور ماہرین آئین اپنی اور پارٹی کی پوزیشن بچانے کیلئے آئین کے تحفظ کیلئے بیانگ دہل سرگرم ہوگئے۔ رکے وسیم سجاد، شاہد خاقان عباسی اور احمد سعید کرمانی بھی نہیں، محتاط رہ کر پارٹی سے دفا کا دامن پکڑے اپنی اپنی پوزیشن کاتحفظ کر گئےاور مصطفیٰ نواز کھوکھر تو اولا گارکی سیاست کی انتہاکے خلاف بارش کا پہلا قطرہ بنے۔

یہ تو سیاست دانوں، عدلیہ اور ریاستی اداروں کی گھمبیر سیاسی اقتصادی بحران میں لی گئی پوزیشن ہے۔ اصل سوال و معاملہ 23 کروڑ عوام کا ہے جن کو آٹے کی جان لیوا تقسیم اور اس کی انتخابی مہم نما تشہیر کے بعد اب کسی انتخابی مہم کی ضرورت نہیں۔ پی ڈی ایم نے آتے ہی پھر اپنی ہونہار اکنامک قیادت اسحاق ڈار کے عوام دشمن اقدامات سے جتنی اور جیسی عوام کی توہین کی اور کی جا رہی ہے اس کی ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی الیکشن کے خلاف جس طرح بند باندھے جا رہے ہیں اور سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف سیاسی مقدمات کی بھرمار سے جوفسطائیت مچائی جا رہی ہے وہ توہین جمہور کی جدید دور میں بدترین مثال ہے۔ عدالتی مہلت سے مذاکرات کے متفقہ قومی نظریہ ضرورت سے بھی کوئی راہ نہیں نکلتی تو توہین جمہور بس۔ بمطابق آئین الیکشن کی طرف آئو اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملداری سے یقینی آغاز سیاسی استحکام کی بند راہوں سے کنٹینر ہٹائو، وگرنہ 23کروڑ پریشان حال یہ کام خود کرنے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ آئین سے کھلواڑ بند کرو، اس سب سے عظیم قومی اساس پر عمل کرکے آئو سب مل کر اس کی حفاظت کریں۔ وماعلینا الالبلاغ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین