• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ

شاعر کی نَوا ہو کہ مُغَنّی کا نفَس ہو

جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحَر کیا

جیسا کہ امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے سماعت کے پہلے دن ہی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف ایک عبوری حکم امتناعی جاری کر دیا۔ قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ چیف جسٹس بندیال کو اس بینچ کی سربراہی نہیں کرنی چاہئے تھی کیونکہ مجوزہ قانون ان ہی کے اختیارات کو چیلنج کر رہا تھا اور مفادات کا ٹکراؤ واضح نظر آرہا ہے۔ اس بینچ کی سربراہی کرکے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس افتخار چوہدری کی یاد تازہ کر دی جب انہوں نے اپنے بیٹے کے خلاف کیس کی خود سماعت کی تھی۔ قانون چیف جسٹس کو اگر بینچ تشکیل دینے میں اپنی مرضی استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے تو قانون کی دیر پا روایات اور کلچربھی اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ صوابدیدی اختیار ات مکمل ذمہ داری کے ساتھ استعمال کئے جائیں۔ان بینچوں کی تشکیل میں پاکستان کی وفاقیت کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیااور پاکستان کی تمام وفاقی اکائیوں کو اس عمل کا حصہ بھی نہیں بنایا گیا۔اس فیصلے سے پہلے ہی ممتاز قانونی ماہرین حامد خان اورسلمان اکرم راجہ نے آٹھ رکنی بینچ کی تشکیل پر حیرت کا اظہار کیا تھا۔ اس صورتحال سے یہ بات عیاں ہے کہ چیف جسٹس اپنی مرضی کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور شاید انکو اس بات کا احساس نہیں کہ اس طرح بینچ بنانے سے پاکستان میں ادارہ سازی کی بچی کھچی امید بھی جاتی رہے گی۔یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں شائع ہونے والے بین الاقوامی جمہوری انڈیکس میں جمہوریت کی پاسداری کی مد میں ناروے کو پہلا، بھارت کو چھیالیسواں، بنگلہ دیش کو 75 واں اور پاکستان کو ایک سو چارواں نمبر دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں، 75سال سے نہ تو مکمل طور پر جمہوریت قائم ہوئی اور نہ مکمل طور پر آمریت رہی ۔ اس سے پہلے بھی پاکستانی سیاست میں جمہوریت کو آمرانہ ادوار میں شدید جھٹکے لگے ہیں لیکن جس طرح آجکل عدلیہ اور مقننہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہو گئے ہیں، اس کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں پہلے نہیں ملتی۔آئین کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمنٹ کے خصوصی سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر مولوی تمیز الدین کو انصاف مل جاتا تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا۔اس سے پہلے گورنر جنرل غلام محمد نے اس وقت کے سینئر ترین جج جسٹس ابوالصالح محمد اکرم جن کا تعلق مشرقی بنگال سے تھا، کو چیف جسٹس بنانے سے انکار کر دیا اور ایک جونیئر جج جسٹس منیر کو چیف جسٹس کا عہدہ سونپ دیا،جنہوں نے نظریہ ضرورت کے فلسفے کو قانونی حیثیت دے کر آمروں کو پاکستانی سیاست پر قبضہ کرنے کا راستہ دکھایا۔ اگر اس وقت ہی پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوجاتی تو جسٹس انوار الحق اورجسٹس ارشاد حسن خان جیسوں کے فیصلے کبھی قانونی دستاویزات کا حصہ نہ بنتے۔ آج کل سپریم کورٹ کے وکلاء عام طور پر کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ انہیں کسی بھی کیس میں بینچ کے بارے میں بتائیں، وہ پہلے ہی فیصلے کی پیش گوئی کر دیں گے۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کا اختیار تاریخی طورپرصرف انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے مگر کچھ عرصے سے عام نوعیت کے معاملات کیلئے بھی اس کا بے دریغ استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ جو کیسز ہائی کورٹ میں چل رہے ہوں، ان پر ازخود نوٹس لینے سے نہ صرف اہم قانونی تقاضے پورے نہیں ہو تے، بلکہ مخصوص سیاسی مفادات کیلئے بھی ان کا استعمال ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی اسٹیبلشمنٹ نے کسی نئی جماعت کو اقتدار دلوایا اوراسکے بعداپنے مخصوص اہداف بھی پورے کر لئے، لیکن ایسی بنائی ہوئی جماعت کبھی ختم نہ ہوسکی۔ بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے اہداف پورے کرنے کی آڑ میں اس نے سماج میں اپنی جڑیں مضبوط کر لیں جس سے جمہوری کلچر کو فروغ ملنے کی بجائے سیاست پر جاگیرداروں، فوجی جنرلوں، سجادہ نشینوں اور قبائلی سرداروں کا قبضہ مزید مضبوط ہوگیا اور عام آدمی الیکشن جیت کر پارلیمنٹ کا حصہ نہ بن سکا۔ کنونشن مسلم لیگ، مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی اس کی زندہ مثالیں ہیں۔اسی روش پر چلتے ہوئے جس طرح اسٹیبلشمنٹ نے 2018ء میں عمران خان کو اقتداردلوایا، وہ پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی سپر میسی ایک دور رس خواب ہی بن کر رہ گئی ہے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو نیوٹرل ظاہر کرناشروع کر دیا ہے لیکن انکے ماضی کے کارناموں کی وجہ سے اور خاص طورپر عمران خان جیسی خود پسند شخصیت کو اقتدار میں لانے کی وجہ سے پاکستان کے سیاسی ادارے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اسکے باوجودوقت کی اشد ضرورت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں مل کر موجودہ بحران کا حل تلاش کریں۔ یقیناً الیکشن ایک ہی تاریخ پر ہونے چاہئیں اور دونوں پارٹیاں مل کر باہمی مشاورت سے مئی یا اکتوبر کی تاریخ کے علاوہ کسی اورتاریخ پر متفق ہو کر پاکستان کو ایک شدید سیاسی بحران سے نجات دلا سکتی ہیں اوریہ سیاسی کلچر کا تقاضا بھی ہے کہ شدید اختلافات کے باوجود فریقین کومل کر ہی فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین