قیام پاکستان کو 75 برس اور آئین پاکستان کو بنے 50 برس بیت چکے مگر وطن عزیز میں آج بھی عملی طور پر یہ طے نہیں کیا جاسکا کہ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کیسے سفر کرنا ہے۔ ہر تھوڑے عرصے بعد کسی نہ کسی تجربے یا خواہش کے پیش نظر کوئی ایک ادارہ اپنے اختیار سے آگے بڑھ کر دوسرے کے امور میں مداخلت شروع کردیتا ہے۔ یہ کام قیام پاکستان کے فوری بعد ہی شروع ہوا اور آج بھی جاری و ساری ہے۔
پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے محض کرداروں کی تبدیلی کے ساتھ پچھلی غلطیاں دوبارہ دہرائی جاتی ہیں۔ اگلے کچھ تاریخی واقعات میں آپ کو خود ہی ایسی مماثلت نظر آئے گی جو یقینا آپ کو حیران کردے گی۔
سنیارٹی کو نظر انداز کرکے اپنے ججز لانے کی خواہش تبھی سے چلی آرہی ہے، اسی خواہش نے اس وقت بھی نظریہ ضرورت کی شکل میں ملک کو بحرانوں میں دھکیلا اور آج بھی یہی خواہشیں بحرانوں کا موجب ہیں۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا سپریم کورٹ میں دو جونیئر ججز کی تقرری پر قوم سے معافی مانگنے کا اعلان بھی واضح کرتا ہے کہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے حکومت نے میرٹ کو نظر انداز کیا اور آج اپنی اسی غلطی کے سبب حکومت بھی پریشان ہے اور ملک میں سنگین ترین آئینی بحران جنم لے چکا ہے۔
سپریم کورٹ میں اپنی مرضی کے ججز رکھنے کی خواہش 1973 میں آئین پاکستان کی تیاری کے وقت بھی زیر بحث آئی۔1973ء کا آئین اس لحاظ سے گزشتہ آئین سازی سے منفرد تھا کہ اس میں عدلیہ کو پہلی بار انتظامیہ سے علیحدہ کرکے خودمختار بنایا گیا۔ قومی اسمبلی مباحثوں میں عدلیہ کے کردار اور تقرریوں کے حوالے سے مختلف تجاویز سامنے آئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اس بات پر تو متفق تھی کہ عدلیہ کو انتظامیہ کی ماتحتی سے نکالناضروری ہے، مگر عدالت کے دائرہ اختیار پر کچھ کنٹرولبھی انکی نظر میں بہت ضروری تھا۔
عدلیہ میں ججز کی تعیناتی وہ سب سے پہلا اختلاف تھا جو پیپلز پارٹی کی طرف سے سامنے آیا۔ بھٹو حکومت چاہتی تھی کہ عدلیہ کو آزادی تو دی جائے لیکن ججز کی تعیناتی وزیر اعظم کی سفارش سے کی جائے گی۔ اس طرح ججز کے تقرر کا اختیار وزیر اعظم کے سپرد کرکے عدلیہ بالواسطہ طور پر انتظامیہ کے ماتحت ادارہ بن جاتا۔ پیپلز پارٹی کی اس تجویز کے تحت سپریم کورٹ میں تبادلوں کا اختیار انتظامیہ کے تحت چلا جاتا، جس سے عدلیہ کے آزادانہ کام کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتی۔
پیپلز پارٹی کی عدالت پر کنٹرول رکھنے کی اس خواہش رد کردیاگیا۔ وزیر قانون حفیظ پیرزادہ نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سمجھایا کہ وزیر اعظم کی سفارش پر تعینایتوں کی بجائے آئین میں یہ درج کرنا چاہیے کہ وزیر اعظم سے مشاورت کے بعد ججز تعینات ہونگے۔ یعنی سفارش کو مشاورت کے لفظ سے تبدیل کردیا گیا۔
آئین بننے کے بعد عدلیہ کا پہلا اور سب سے بڑا امتحان خود آئین بنانے کے کیس کے حوالے سے تھا۔ 1977ء میں جنرل ضیا کے مارشل لا کا نفاذ پاکستان پیپلز پارٹی کیلیے بھی ایک دھچکا تھا۔ اسے عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ بیگم نصرف بھٹو نے 184 تین کے تحت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے خلاف پٹیشن دائر کی، جس میں مارشل لا اور بھٹو سمیت 10 لوگوں کی گرفتاری کو چیلنج کیا گیا،جن کو 17 ستمبر 1977 کو مارشل لا ریگولیشن کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ پٹیشن داخل ہوئی۔ نورکنی بنچ بنا۔ پانچ جولائی 1977 کے تمام اختیارات کو چیلنج کیا گیا۔
وفاق کی نمائندگی اے کے بروہی کررہے تھے، جنہوں نے مارچ الیکشن کے بعد کے حالات کو بنیاد بنایا کہ الیکشن نتائج دھاندلی کی وجہ سے حکومت اپنی اخلاقی حیثیت کھوچکی تھی اور دنگے فساد کے ماحول سے بچنے کیلیے فوج نے بہت اچھا قدم اٹھایا اور مارشل لا لگایا۔
شریف الدین پیرزادہ نے اصطلاح استعمال کی یہ کُو نہیں بلکہ نظریہ ضرورت کے حالات ہیں، جس میں بھٹو کی دھاندلی زدہ حکومت ختم کی گئی۔ عدالت نے 10 نومبر 1977 کو نظریہ ضرورت کو بنیاد بناتے ہوئے نصرت بھٹوکی پٹیشن ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے رد کردی۔ سپریم کورٹ نے عجیب تاویل پیش کی اور کہا کہ اس تبدیلی کو علیحدگی میں دیکھنے کی بجائے تمام حالات کو دیکھنا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا۔
سیاسی صورت حال، مجبوری حالات کا تقاضا، تبدیلی لانے والوں کی سوچ اور بھٹو دور میں دباؤ اور گھٹن کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ فیصلے میں لکھا گیا کہ 1973ء کا آئین اب بھی نافذ العمل ہے صرف اسکے کچھ حصے معطل کیے گئے ہیں جن کا حکم ریاستی مشینری کی طرف سے آیا ہے۔ سپریم کورٹ نے جنرل ضیا ء الحق کے غیر آئینی اقدام کو وقت کی ضرورت گردانا ۔ فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ ہرقسم کے اقدامات اور تمام قانونی معاملات اور فیصلے ترتیب دے سکتے ہیں۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ 7مارچ 1977ء کے انتخابات اور دھاندلی کے الزامات کے بعد ملک میں امن و امان کے حالات اور ڈوبتی معیشت کی وجہ سے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے حکومت سنبھالی، یہ کم سے کم وقت میں الیکشن کروائے گی۔ جنرل ضیاء الحق نے نوے دن کا وعدہ کیا اور نوے دن گیارہ سالوں میں تبدیل ہوگئے یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔
اس تباہ کن فیصلے میں نظریہ ضرورت جوعاصمہ جیلانی کیس میں اوورول کیا جاچکا تھا،اسے ایک بار پھر زندہ کردیا گیا۔پاکستان کی عدلیہ کا بدترین کردار یہاں پر ہی ختم نہیں ہوا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہا کیا گیا تو عوام نے بھرپور حمایت کی تو بھٹو کو ڈاکٹر نذیر احمد کے قتل کیس میں الجھا دیا۔ ضیاء الحق کے پاس مولوی مشتاق جیسے ججز موجود تھے، جنہیں لاہور ہائی کورٹ چیف جسٹس لگایا گیاجہاں بھٹو کی ناصرف ضمانت منسوخ ہوئی بلکہ کینگرو ٹرائل کے ذریعے سزائے موت سنائی گئی۔
عاصمہ جیلانی کیس سے لے کر بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو درست قرار دینے تک عدلیہ کے اس حصے نے تباہ کن کردار ادا کیا۔ سوائے کچھ ججز کے جیسے، جسٹس دراب پٹیل، ان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
عدلیہ کی بدترین تاریخ کے موجد جسٹس منیر تھے جن کو ان کے ان الفاظ “Necessity makes lawful which is unlawful” یعنی ضرورت غیر قانونی کام کو قانونی بنادیتی ہے۔ بہر حال جنرل ضیاء کے 90 روز الیکشن کا دعویٰ پورا نہ ہوا بلکہ یہ دور گیارہ سال تک چلتا رہا۔ غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات سے لے کر من پسند قانونی اصلاحات جنرل ضیا کے اس دور کا خاصا رہیں۔
1989 کے حاجی سیف اللہ کیس میں سپریم کورٹ نے 1981 کی اسمبلی تحلیل کی، محمد خان جونیجو کا ہٹایا جاناغیر قانونی قرار دیا لیکن نئی حکومت آچکی تھی اس لیے 1987ء کی اسمبلی کو بحال نہ کیا گیا۔
عدلیہ کے کردار نے 80ء کی دہائی کے آخر میں ایک نیا موڑ لیا اور عدلیہ کو عوامی مفاد عامہ کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا گیا۔ 1973 کے آئین نے عدلیہ کو جوڈیشل ریویو کا اختیار تو دیا تھا لیکن اسکا کھلا استعمال اس دور سے شروع ہواجہاں قانونی اور انتظامی معاملات سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں لائے جاتے تھے وہاں سیاسی معاملات بھی عدالت میں لائے جانے لگے۔
1990ء کی دہائی میں جہاں سیاسی جماعتیں اندرونی اور بیرونی مسائل میں گھری تھیں وہاں 1990 اور 1996ء میں بے نظیر بھٹو کی دوحکومتوں کو بدنام زمانہ آئینی ہتھیار اٹھاون ٹو بی کے تحت جب گھر بھیجا گیا تو سپریم کورٹ نے اسے جائز قرار دیا۔ جبکہ 1993ء کی نواز شریف حکومت کی تحلیل کو سپریم کورٹ نے بحال کردیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جسے عدالتوں کی جوڈیشلائزیشن آف پولیٹکس کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔
1973ء کے آئین نے بنیادی ڈھانچہ فراہم کردیالیکن وقت کے ساتھ ساتھ عدلیہ اپنا کردار بدلتی رہی۔ آئین بننے کے بعد کافی عرصے تک عدلیہ کے بارے میں تصور تھا کہ عدلیہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے پارٹنر کے طور پر کام کرتی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں پاکستان کے سیاسی حالات نے عدلیہ کا کردار بھی مرکزی بنادیا۔ اس دور میں لفظ ٹرائیکا Troika کو اہمیت ملی۔ صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف کے دفاتر سے کی گئی متعدد کھینچا تانی کے واقعات کا مرکز سپریم کور ٹ بھی بنتی رہی۔
اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتیاں ہمیشہ سے سپریم کورٹ میں بیٹھے ججز کے لیے قانون سے زیادہ زاتی پسند نا پسند اور انا کا مسئلہ رہی ہیں۔ 1996 کے Al-Jehad Trust Case میں سپریم کورٹ نے ایگزیکٹو کی اعلی عدلیہ میں تعیناتیوں میں اثرانداز ہونے کی گنجایش تقریباً ختم کر دی۔صدر اور چیف جسٹس میں ہونے والی Consultation کی ایسی تشریح کی گئی جس کے نتیجے میں چیف جسٹس کی رائے کو زیادہ اہمیت اور فوقیت حاصل ہو گئی۔
1997ء میں ن لیگ کی حکومت نے 13ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدر مملکت سے قومی اسمبلی کی تحلیل کا اختیار واپس لیا تو چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنی سربراہی میں بنائے بنچ کے ذریعے ان اختیارات کوبحال کردیا۔ سپریم کورٹ کے ہی ایک اور بنچ جسکی سربراہی جسٹس سعید الزمان صدیقی کررہے تھے، اس بنچ نے چیف جسٹس کے فیصلے سے اختلاف کیا اور صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیارات کو معطل کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ بالکل آج کے حالات کی طرح تب بھی سپریم کورٹ کے اندر ہی ججز آمنے سامنے آگئے۔
سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں جسٹس ارشاد حسن کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے انہیں کام سے روکنے کا حکم دیا، بعد ازاں اس فیصلے کی توثیق سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ نے کی۔ چیف جسٹس کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا گیا اور جسٹس سجاد علی شاہ سپریم کورٹ سے رخصت ہوگئے۔
1999ء کے مارشل لا سے سپریم کورٹ میں اعلی عدلیہ کو ایک بار پھر امتحان سے دوچار کردیا۔ میاں نواز شریف کی حکومت ختم کردی گئی تھی اور عدلیہ نے نہ صرف اس غیر آئینی اقدام کی توثیق بلکہ اسے جائز بھی قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر نظریہ ضرورت کو زندہ کردیا۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے،2000ء کے ظفر علی شاہ کیس میں ایک بد ترین تاریخ رقم کی۔ 1999ء کے ملٹری ٹیک اوور کے بعد سپریم کورٹ کے زیادہ تر ججزنے پی سی او کے تحت حلف بھی اٹھایا۔ ان میں افتخار محمد چوہدری بھی شامل تھے جو بعد میں چیف جسٹس آف پاکستان بنے۔
اس فیصلے میں ججز نے ایک بار پھر فوجی آمر کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت دے دی۔ ان ججز نے بہت سی وضاحتیں دینے کی کوشش بھی کی یہ سب کو پتہ تھا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے ایک بار پھر آئینی اصولوں پر ذاتی مفاد کی خاطر سمجھوتا کیا۔
افتخار محمد چوہدری 2005 ء میں چیف جسٹس بنے اور عدلیہ اس دور میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے Veritable arm کے طور پر کام کرتی رہی۔ پاکستان سٹیل ملز کی پرائیویٹائزیشن کے معاملے پر پرویز مشرف اور افتخارچوہدری کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔ سابق آرمی چیف نے اپنی وفات سے کافی عرصہ پہلے یہ بتایا کہ افتخار چوہدری نے انہیں ا سٹیل مل کی پرائیویٹائزیشن روکنے کا فیصلہ دے کر دھوکا دیا۔ افتخار چوہدری کے ساتھ پرویز مشرف کے تعلقات کشیدہ ہوگئے اور مارچ 2007ء میں پرویز مشرف کی ٹیم نےافتخار چوہدری کو عہدہ چھوڑنے کیلیے کہا۔
انکار کی صورت میں غیر آئینی طور پر افتخار چوہدری کو 9 مارچ 2007 کو بطور چیف جسٹس معطل کردیا۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 209 کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج کو صرف سپریم جوڈیشل کونسل کی انکوائری اور رپورٹ آنے کے بعد ہی مس کنڈکٹ یا ان کپیسیٹی ثابت ہونے پر ہی عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان مقررہوئے ،کیونکہ جسٹس بھگوان دا س ملک سے باہر تھے۔ افتخارچوہدری کے خلاف ریفرنس بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجا گیا۔ پرویز مشرف نے البتہ اقتدارجانے کے بہت عرصے بعد اس پورے معاملے کو اپنی سنگین غلطی قراردیا۔
افتخار چوہدری جوکہ خود ایک پی سی او جج تھے، انہوں نے پرویز مشرف کے غیر آئینی احکامات کوماننے سے انکار کرتے ہوئے ایک نئی مثال قائم کی۔ معزولی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ۔عوام اور وکلا افتخار چوہدری سے اظہار یکجہتی کیلیے نہ صرف کھڑے ہوئے بلکہ ریاست کو چیلنج کردیا۔اسی اثنا میں وکلا نے ملک بھر میں عدالتی بائیکاٹ شروع کردیا۔ یہ ایک نیا دور تھا جہاں تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک پی سی او چیف جسٹس نے اپنے بینیفشیئر کا حکم ماننے سے انکار کیا تھا۔ لوگ اسے عوامی انقلاب سے تشبیہ دے رہے تھے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شروع ہوچکی تھی اور مشرف حکومت نے افتخار چوہدری کے وکلا کی اپنے موکل تک رسائی روک بھی دی۔
کارروائی موخر کرنے کی درخواست بھی سپریم جوڈیشل کونسل نے رد کردی۔لیکن ہوا جنرل پرویز مشرف کے خلاف چل چکی تھی اور افتخار چوہدری معطلی کے باوجود وکلا، سول سوسائٹی اور موقع کی تلاش میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کیلیے ایک کوچنگ ٹکٹ کے طور پر کام کررہے تھے۔ اسی دوران 12 مئی 2007ء کو سانحہ کراچی ہوگیا ،جس میں کئی قیمتیں جانیں ضائع ہوئیں۔ مشرف طاقت کے نشے میں دھت اس بات سے بے خبر تھے کہ عدلیہ میں تبدیلی آچکی تھی۔
افتخار چوہدری کو آئین کا محافظ گردانا جارہا تھا۔ ایک قومی ہیرو کا درجہ دے دیا گیا تھا لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ملک اس عدالتی انقلاب سے ایک بڑے اور تباہ کن عدم توازن کی طرف بڑھ رہا ہے۔20 جولائی 2007ء کو13 رکنی بینچ کے مشترکہ فیصلے کے نتیجے میں افتخار چوہدری کو بحال کردیا اور تین کے مقابلے میں دس کی شرح سے سپریم جوڈیشل کونسل میں موجود ریفرنس بھی ختم ہوگیا۔
2007ء میں اپنی بحالی کے بعد افتخار چوہدری ایک طاقتور چیف جسٹس بنے اور مشرف حکومت کے ساتھ حالات مزید کشیدہ ہوگئے۔
مشرف دوبارہ پانچ سال کیلیے صدر منتخب ہونا چاہتے تھے، انکے کینڈیڈیچر کے مسائل کو لے کر معاملہ سپریم کورٹ میں آیا اور پھر حالات اس نہج تک پہنچے کہ 3 نومبر 2007ء کو مشرف نے ایمرجنسی لگادی اور نیا پی سی او آیا۔ سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے زیادہ تر ججز نے پی سی او کے تحت حلف نہ لیا، البتہ کچھ ججز نے نئے پی سی او کےتحت حلف اٹھایا ، اسی کے تحت جسٹس عبد الحمید ڈوگرنے چیف جسٹس پاکستان کا حلف اٹھایا۔
پرویز مشرف صدر تو رہے، مگر انہیں آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ افتخار چوہدری سمیت درجنوں ججز کو عدلیہ سے علیحدہ کردیا گیا ۔
2008ء کے انتخابات کے بعد آنے والی حکومت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے مل کر اقتدار سنبھالا اور بھوربھن معاہدےکے تحت مشرف کا مواخذہ اور سب سے بڑھ کر 60 ججز کی بحالی جن کو نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے تحت غیر آئینی طور پر برخاست کیا گیا تھا۔ سابق صدر،آصف زرداری شروع دن سے اس پر مختلف موقف رکھتے تھے، تناو بڑھا اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی راہیں جدا ہوگئیں۔ اس کی وجہ افتخار چوہدری اور ہم نوا ججز کی قومی مفاہمتی آرڈیننس یا این آر او پر قانونی رائے تھی۔
زرداری صاحب اس معاملے پر مسلم لیگ ن اور وکلا برادری کے موقف سے کوسوں دور کھڑے تھے اور افتخار چوہدری کی بطور چیف جسٹس بحالی سے گریزاں تھے۔کشیدگی بڑھی اور فروری 2009ء میں صدر زرداری نے پنجاب میں ن لیگ کے وزیر اعلیٰ شہبا زشریف کو ہٹا کر گورنر راج لگادیا ۔ اور پھر آخر کار مارچ 2009 کو عدلیہ بحالی تحریک نے صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کو مجبور کیا کہ افتخار چوہدری اور دیگر معزول ججوں کو بحال کردیا جائے۔
افتخار چوہدری کا بحالی کے بعد کا دور پاکستان کے عدالتی نظام کی چولیں ہلاگیا۔ جوڈیشل ایکٹوازم کا بدترین دور رہا۔ 1973ء کے آئین کی شق 184 تین کا بے دریغ استعمال ہوا اور ان گنت سوموٹو نوٹسز لیے گئے ۔ این آر اور کالعدم قرار دیا گیا۔ پھر اس کی عملداری،افتخار چوہدری کی ہر جنبش قلم کی مدح سرائی کیلیے ملک کے بڑے وکلا اور جید صحافی موجود تھے۔ سپریم کورٹ کے 17 ججز کو مسیحا کا درجہ دے دیا گیا ۔جسٹس طارق محمود کہتے رہے کہ یہ تمام اقدامات اور سپریم کورٹ کی دیگر اداروں اور انتظامیہ کے کام میں بے جا مداخلت ملک میں طاقت کی تقسیم کے تصور کو تباہ و بربار کردے گی۔معاملہ یہاں تک پہنچا کہ این آ ر او عملدرآمد کیس میں سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کے جرم میں ایک وزیر اعظم کو توہین عدالت کی سزا سنادی گئی اور یوسف رضا گیلانی آرٹیکل 63 کے تحت پانچ سال کیلیے نااہل ہوگئے۔
2010ء کی اٹھارویں آئینی ترمیم ، آئین بننے کے بعد بہت بڑا سنگ میل اور شاندار کارنامہ تھا۔ اسکا سہرا پاکستان پیپلز پارٹی، رضا ربانی اورسابق صدر آصف زرداری کو جاتا ہے۔ افتخار چوہدری کی 2009ء میں بحالی کے بعد سپریم کورٹ نے جوڈیشل ایکٹوازم کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو بے شمار مسائل کاسامنا تھا۔ یوسف رضا گیلانی نااہلی سے پہلے اور بعد حکومت کا اٹھایا ہوا تقریبا ہر انتظامی فیصلہ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184 تین کی تلوار کے نیچے آجاتا۔ ہم خیال بنچز صرف آج کے دور میں ہی نہیں بلکہ 2009 سے 2013ء کے دوران بھی بنتے رہے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری، جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس خلجی عارف کا بنچ بھی ایک ہم خیال بنچ تھا ،جس کا نتیجہ کیس کی سماعت سے قبل ہی سب کو سمجھ آجاتا تھا۔ مسلم لیگ ن اس دور میں سپریم کورٹ اور افتخار چوہدری کی جوڈیشل ایکٹوازم کی اندھی تقلید کرتی رہی۔
اٹھارویں ترمیم بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کردی گئی۔ ہمیشہ کی طرح سپریم کورٹ کو اعتراض، اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پر تھا۔ اٹھارویں ترمیم ججز کی تعیناتی کیلیے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کا طریقہ کار متعارف کروایا گیا تھا۔ اس طرح پارلیمان کو اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تعیناتی میں ایک مضبوط حتمی رول دے دیا گیا۔ اعلیٰ عدلیہ کو یہ گوارہ نہ تھا اور اسکا برملا اظہار سپریم کورٹ نے کچھ ججز کی تعیناتی میں کیا اور پارلیمانی کمیٹی کے اعتراضات اور کچھ ججز کی جوڈیشل کمیشن سے منظوری کے بعد پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کو ایک پٹیشن داخل ہونے پر مسترد کرکے کیا گیا۔ یہاں بھی آرٹیکل 184 تین کا استعمال کیا گیا۔
پارلیمان کو مجبور کیا گیا اور اٹھارویں ترمیم پارلیمان کو سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران دوبارہ بھیج دیا گیا۔ اس معاملے پر مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے آنکھیں بند کرکے سپریم کورٹ کے نقطہ نظر کی تقلید کی۔ اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ سپریم کورٹ جوڈیشل ایکٹوازم اور ججز کی تعیناتی میں من مانی مسلم لیگ ن پر بہت بھاری ثابت ہوئی۔
پارلیمان کو مجبورا 19 ویں آئینی ترمیم کے پاس کرنی پڑی اور اعلیٰ عدلیہ میں ججز تعیناتی میں پارلیمانی کمیٹی کا کردار بہت محدود اور ربڑ اسٹیمپ جیسا رہ گیا۔
اسی سپریم کورٹ میں میمو گیٹ جیسے معاملات بھی ہوئے، جہاں مسلم لیگ ن نے ایک بار پھر بھرپور سیاسی داؤپیچ کھیلے اور آصف زرداری کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر گھیرا تنگ کیا۔
2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے اقتدار میں آئی۔ الیکشن کے نتائج پر تمام جماعتوں نے اعتراض کیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے دھاندلی کی تحقیقات کیلیے چار حلقے کھولنے مطالبہ کیا۔ آرٹیکل 225 کی موجودگی میں یہ مطالبہ ناجائز تھا۔
اسی دوران میاں نواز شریف کی حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے اور ایمرجنسی لگانے کے الزامات پر ایف آئی اے سے تحقیقات شروع کروادیں۔ ایف آئی اے نے 16 نومبر 2013ء کو پرویز مشرف کو آئین معطل کرنے کا ذمہ دار ٹھہرادیا۔
دسمبر 2013ء میں پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہونے کا کہا گیا۔ پرویز مشرف پر 73ء کے آئین کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کا الزام تھا۔
جون 2013 میں میاں نواز شریف قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں کہہ چکے تھے کہ ان کی حکومت سپریم کورٹ سے درخواست کرے گی کہ پرویز مشرف کے خلاف ارٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلا کر سزا دی جاے۔ خصوصی عدالت بنائی گئی لیکن مشرف متعدد پیشیوں پر عدالت نہ آئے۔ مشرف کو اپنے ادارے کی حمایت حاصل تھی۔ اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے 7 اپریل 2014 کو ایس ایس جی کے ہیڈکوارٹر میں خطاب کرتے ہوے کہا کہ " فوج اپنی عزت اور ادارے کے وقار کی ہمیشہ حفاظت کرے گی"۔ پیغام واضح تھا۔ ٓاین کی خلاف ورزی جتنی مرضی سنگین ہو لیکن زمینی حقیقت نے سر اٹھا لیا تھا۔ نواز شریف کی حکومت کو اس کی قیمت چکانا پڑی۔
اس کے بعد جو ہوا وہ تارئخ کا حصہ ہے۔ لیکن یہی تاریخ گواہ بھی رہے گی کہ آئین کی سربلندی کے لیے جسٹس وقار سیٹھ مرحوم نے آئین کے مطابق ایک فوجی آمرکو سزا سنائی اور نام نہاد جمہوری لیڈر اور وزرا نے انھیں پاگل اور ذہنی مریض تک کہا۔ عدلیہ کا ایک اور سیاہ باب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں رقم ہوا۔
جوڈیشل ایکٹوازم کا جوبیج افتخار چوہدری نے بویا وہ 2018ء میں ایک بدبودار درخت بن چکا تھا۔ ثاقب نثار نے عدل فراہم کرنے کے علاوہ وہ تمام کام کیے جن کا چیف جسٹس کے منصب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ آرٹیکل 184 تین کو نہایت بھونڈے انداز میں استعمال کیا گیا۔ 1973ء آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ عدلیہ ، انتظامیہ کے امور میں مداخلت کرے۔ عوام، سرکاری افسران، ڈاکٹرز یہاں تک عدلیہ کے جونیئر ججز سمیت کوئی بھی چیف جسٹس ثاقب نثار کے عتاب سے محفوظ نہیں تھا۔
2016ء میں پانامہ پیپر ز منظر عا م پر آئے، جن میں سینکڑوں پاکستانیوں کی طرح شریف خاندان کے اثاثوں کا ذکر بھی موجود تھا۔ ڈان لیکس کی رپورٹ اور آئی ایس پی آر کی اس رپورٹ کو ریجیکٹڈ کہنے کے بعد نواز شریف کے تعلقات اس وقت جنرل باجوہ کی اسٹیبشلمنٹ سے کشیدہ ہوچکے تھے۔ عمران خان نے پانامہ پیپرز کے معاملے کو سیاسی طور پر بہت جارحانہ طریقے سے کیش کروایا ۔ پہلے اسلام آباد لاک ڈاؤن کا کھیل رچایا گیا پھر عمران خان کی اپنی زبان کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کے کہنے پر اسے سپریم کورٹ میں لایا گیا۔
آرٹیکل 184 تین کا ایک بار پھر استعمال ہوا اور ملک میں اعلیٰ عدلیہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید جو اس وقت آئی ایس آئی میں ڈی جی سی تھے اور بعد میں آئی ایس آئی کے سربراہ بنے، نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ نواز شریف کو نا صرف فارغ کرناہےبلکہ نوازشریف کی پارلیمانی سیاست بھی ختم کرنی ہے۔ شریف خاندان کا دفاع بھی بہت کمزور تھا جس میں قطری خط جیسے ناقص شواہد موجود تھے، باقی کام واٹس ایپ پر بننے والی جے آئی ٹی نے کر دیا تھا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار سمیت سپریم کورٹ کے سینئر ججزجنرل باجوہ اور جنرل فیض والی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے بنے اور نواز شریف کو پانامہ کیس میں سزا سنائی گئی۔ ثاقب نثار اس بنچ کا حصہ نہ تھے لیکن سب جانتے تھے کہ تمام کام ان کی نگرانی میں ہو رہا تھا۔ اس بار طریقہ واردات دلچسپ تھا۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نواز شریف کو پانچ میں سے دو ججز نے نااہل قرار دیا اور پھر تین ججز نے معاملہ جے آئی ٹی کو بھیجا اور منطقی ہدف حاصل کرنے کیلیے سپریم کورٹ کے ایک جج کو اس معاملے کا مانیٹرنگ جج مقرر کیا گیا۔یہ کام بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ بعد میں تمام ججز نے جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد نواز شریف کو نااہل کردیا اور وہ 1973ء کے آئین کے مطابق صادق اور امین نہ رہے۔
یاد رہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 ذوالفقار علی بھٹو کے بنائے ہوئے آئین کا حصہ نہیں تھے۔ نواز شریف کی نااہلی قانونی طور پر ایک بھونڈا فیصلہ تھا۔ کیس پانامہ پاپیپرز سے شروع ہوا اور نواز شریف کو اقامہ رکھنے اور اپنے بیٹے سے ایسی تنخواہ، جو انہوں نے وصول نہیں کی تھی اور صرف ریسیوایبل ایسٹ تھی، ظاہر نہ کرنے پر نااہل کردیا گیا۔ اسی دور میں ایک پٹیشن حنیف عباسی نے عمران خان اور جہانگیر ترین کے نااہلی کے لیے دائر کی۔ اس کیس میں hyper technicality کی وجہ سے عمران خان صادق اور امین قرار پاے ،البتہ جہانگیر ترین کو balancing act کے طور پر قربانی کا بکرا بنا کر نااہل قرار دیا گیا۔
آرٹیکل 62 1 f کے تحت تاحیات نااہلی کا زکر آین میں موجود نہیں،یہ کارنامہ بھی اعلی عدلیہ کے ایسے فیصلوں کے نتیجے میں سامنے آیا۔ البتہ آج کی سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کی رائے میں تاحیات نااہلی بہت سخت سزا ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کا ایک شاندار فیصلہ فیض آباد دہرنہ کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے دیا۔ اس فیصلہ نے ملک کے طاقت ور ترین طبقے کو مشکل میں ڈال دیا۔ اس فیصلے میں دہرنے کے کرداروں اور سہولت کاروں کے نشاندہی کی گی،جس نے اس وقت کے اسٹیبلشمنٹ کو بہت اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ قاضی فائز عیسی کو اس فیصلہ کے قیمت چکانہ پڑی اور ان کے خلاف عمران خان کے دور میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے ایما پرسپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کا سامنا کرنا پڑا۔ الزامات بےتکے تھے لیکن اس معاملے پر بھی قاضی صاحب کے کچھ brother judges نے شرمناک کردار ادا کیا۔
2018 کے بعد جسٹس گلزار چیف جسٹس بنے۔ یہ بھی ایک عجیب دور تھا۔ یہاں بھی انتظامی معاملات میں بھرپور مداخلت کی گئی۔ کراچی سرکلر ریلوے سے لے کر نسلہ ٹاور ، گرانے تک بے تکے فیصلے کیے گے۔ جب موجودہ چیف جسٹسس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے تو ملک کے بڑے قانون دان اس بات کی تائید کرتے نظر آے کہ بندیال صاحب متوازن شخصیت کے مالک ایک بہترین چیف جسٹس کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
تاریخ نہ صرف بے رحم ہوتی ہے بلکہ اس میں سب کچھ درج ہو جاتا ہے،جو مٹانے سے بھی نہیں مٹتا۔ بدقسمتی سے آج کی سپریم کورٹ تاریخ کی سب سے بڑی عدالتی تفریق کا شکار ہے۔ یہ تفریق راے کی نہیں بلکہ شخصیات کی ہے۔ آج بھی سپریم کورٹ میں ہم خیال بنچ موجود ہے جس کے بارے میں تاریہ ہے کہ بننے سے لے کر کیس لگنے سے پہلے ہی فیصلہ لگ بگ طے ہوتا ہے۔ آج بھی سپریم کورٹ میں خاص نوعیت کے کیس خاص طرح کے ہم خیال بنچز کے سامنے لگاے جاتے ہیں۔
آج سپریم کورٹ کے حالات یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب اپنے senior puisne judge اور بہت سے سینیر جج صاحبان کو اپنے ساتھ کسی بنچ کا حصہ بنانا پسند نہیں کرتے اور نہ ہی کسی اہم سیاسی یا آینی کیسس میں یہ بنچ کا حصہ ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں یہ تفریق تو بہت پرانی ہے لیکن اسکی واضح نشاندہی گزشتہ برس کے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ہوئی۔ یہ بھی بدقسمتی ہے کہ تلخی اس نہج تک پہنچی کہ جونیئر ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی کوشش کی وجہ سے موجودہ چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال اورسینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان تلخی ہوئی۔ معاملہ اس نہج تک پہنچا کہ سپریم کورٹ کو جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی آڈیو پبلک کرنا پڑی۔
کچھ دن قبل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اسکے بعد وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ موجودہ چیف جسٹس نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے ذریعے وزیر اعظم شہباز شریف کو پیغام بھجوایا کہ سپریم کورٹ میں جونیئر ججز کی تعیناتی کو یقینی بنانے کیلیے حکومتی ووٹ جوڈیشل کمیشن میں انکے حق میں ڈالا جائے۔ ایسی صورتحال میں نہ کسی کو آئین کی پروا تھی اور نہ ہی مروجہ اصولوں کی۔
آج کی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا فیصلہ کرتے ہوئے فوجداری تاویلیں استعمال کیں اور ایک نہایت بھونڈی تشریح کرڈالی،جسے ملک کے جید قانون دان آئین سے کھلم کھلا انحراف اور Re-Writing of the Constitution گردانتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس کیس کا فیصلہ بھی تین دو کے تناسب سے آیا جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اخترنے اس فیصلے میں 63 اے کی ایک نئی تشریح کردی، جبکہ مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔
پارٹی صدر اور پارلیمانی لیڈر کے اختیارات کے حوالے سے بھی فیصلہ کرتے ہوئے جناب چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے اپنے ہی لکھے ماضی کے فیصلے کی نفی کردی۔پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد انتخابات کے حوالے سے تنازعہ بھی سپریم کورٹ کی زینت اس وقت بنا جب ایک اور مقدمے میں دو جج صاحبان نے نوٹ لکھ کر چیف جسٹس کو نوٹس لینے کیلیے کہا، جبکہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے متعلق معاملات لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت تھے۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے پے درپے حکم نامے جاری کیے یہاں تک کہ یکم مارچ 2023ء کے حکم نامے کے بعد سپریم کورٹ کے اندر موجود جج صاحبان کا فیصلہ تھا کہ یہ معاملہ چار تین کے تناسب سے مسترد کردیا گیا ہے جبکہ چیف جسٹس اور انکے ہمنوا جج صاحبان کے مطابق یہ معاملہ تین دو سے منظور کیا گیا۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمان کی کی گئی قانون سازی کو نافذ العمل ہونے سے روکنے کیلیے Anticipatory Injunctionکو استعمال کیا گیا۔اسکا مقصد چیف جسٹس کے سوموٹو لینے اور بنچ بنانے کے اختیارات کومحدود کرنے سے روکنا تھا۔
موجودہ آئین پاکستان اپنی نصف سنچری مکمل کرچکا ہے لیکن اس دوران پاکستان کی عدلیہ کا کردرا نہایت تشویشناک رہا ہے اور ہماری عدالتی تاریخ نہایت تاریک رہی ہے۔ بدقسمتی سے آج کی عدلیہ کا حال بھی ہمیں کوئی اچھی نوید نہیں سنارہا اور آج بھی حالات بہت کشیدہ ہیں ۔ آج بھی من پسند ججوں کی تعیناتیوں سے لے کر ، چیف جسٹس کے اختیارات کادائرہ کاراور سپریم کورٹ ججوں میں موجود تقسیم ہے۔ آج کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے مایوسی کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آئینی یاعدالتی مستقبل بھی تابناک نظر نہیں آتا۔