• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلزپارٹی شاید وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے سیاست کے پر خار رستے پر چلتے ہوئے سب سے زیادہ مشکلات اور کڑی آزمائشوں کا سامنا کیا،سب سے زیادہ قربانیاں دیں، قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، جلاوطنی کا جبر سہا،خاندان کے افراد نہ صرف اپنی زمین، اپنے گھر اور لوگوں سے دور ہوئے بلکہ اپنے خونی رشتے داروں سے بھی برسوں بچھڑے، مختلف ملکوں میں وطن کی سربلندی کے لئے دیکھے گئے اپنے رہنما کے خوابوں کی پاداش میں تنہائیاں کاٹتے ہوئے اجنبی بن کر رہنے پر مجبور ہوئے۔نصف صدی بیشتر سرمائے کی غیرمنصفانہ تقسیم میں لتھڑے استحصال زدہ معاشرے میں غربت کا بوجھ ڈھوتے پسے ہوئے طبقے کو ذرا کمر سیدھی کرنے کی ڈھیل دینا بھی پسندیدہ عمل نہیں تھا مگر دنیا کی بڑی طاقتوںکی مرضی کے برعکس پاکستان کی معاشی خود مختاری کا منصوبہ بنا کر کام شروع کردینا تو بہت ہی انقلابی قدم تھا جو کامیاب ہوجاتا توآج پاکستان بھی ہمسایہ ملک چین سے قرض نہ مانگ رہاہوتا بلکہ کہیں اس کے برابر کھڑا ہوتا کہ وسائل اور محنت کرنے والوں کی یہاں بھی کمی نہ تھی جس کے بل بوتے پربھٹو نے سفر کا آغاز کیا تھا لیکن ظلم کی انتہا دیکھئے اپنے ملک اور لوگوں کے مفاد کے لئے اٹھایاگیا قدم ذوالفقار علی بھٹو کا ناقابل معافی جرم بن گیا۔سفید دن کے عقب میں نقب لگاتی کالی رات اس کے خلاف سازش کرنے پر تل گئی۔ بے بنیاد الزامات کوعقیدے کی اندھی لاٹھی سےباندھ کر مداری نے وہ خونیںکھیل رچایا جس کی کڑواہٹیں دھرتی کے پانیوں اور فضاوں میں بھی سرایت کر گئیں۔ہر طرف زہر پھیل گیا۔ اُجلے غلاف پہنے بہروپیئے نفرت کا زہر سوچوں میں بھرنے پر مامور ہوئے،لیکن محبت کو مات نہ دے سکے کہ محبت کا قصہ کب ختم ہوتا ہے، نئے زمانے کےنئے کردار نئے اضافے کرتے اسے آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ یہاں بھی یہی کچھ ہوا، پنجاب اور پاکستان بھٹو کی محبت سے دستبردار نہ ہوئے اور ایک بار پھر ملک کو سنوارنے کی بھاگ دوڑ بھٹو کی وـژنری اور دلیر بیٹی کو سونپ دی گئی۔ بی بی قربان ہو گئی تو آصف علی زرداری نے اس سفر کو جاری رکھا اور اپنے دور صدارت میں وفاق کو مضبوط اور صوبوں کو خوشحال کرنے کےایسے قانونی راستے متعارف کروائے جو ان کی گہری دانش اور حکمت عملی کے امین ہیں۔یہ اسی سفر کااعجاز ہے کہ آج اتنے برسوں، سازشوں اور واہموں میں جکڑے ماحول کی فضائیں نکھرنا شروع ہو چکی ہیں جس کا مطلب ہے کہ اب حالات و واقعات بدل چکے ہیں۔ جبر کی بے رحم زنجیریں اور کردار اب اپنے ابدی انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ مطالعہ پاکستان کی تطہیر ہونا اور درست شکل سامنے آنے کاعمل جاری و ساری ہے۔ تاریخ پر ڈالے جبری نقاب وقت کی تیز رفتار ہوا دھیرے دھیرے سرکاتی جار ہی ہے۔اگر یہ کہاجائے کہ سوشل میڈیا پر موجود اہل دانش نے اس نسل پر پوری تاریخ کے نیک و بد اور ٹاوٹ کردار واضح کر دئیے ہیں تو بے جا نہ ہو گا ۔ نہ صرف لوگوں کے شعور میں اضافہ ہونے سے ان کی رائے بدلی بلکہ سیاستدانوں نے بھی سمجھوتے کرنے کی بجائے درست اور کڑے فیصلے کرنے کی ہمت باندھی۔اس وقت ملکی اور غیرملکی اہل دانش و سیاست کو جس سیاستدان نے متاثر کیا وہ بلاول بھٹو ہے۔اب تک ہر فورم پر اس نے اپنی مدلل بات چیت سے لوگوں کو متاثر کیاہے کہ جب ہر طرف جذباتیت اور گالم گلوچ کا دور ہو ایسی گفتگو غنیمت اور خوشخبری ہے۔ پارلیمنٹ میں بلاول بھٹو کی تقریر جمہوری نظام کی برتری اور مضبوطی کے نئے دور کاآغازہے۔بلاول نے نہ صرف اپنی ہر تقریر اور عمل سے ایک مثبت، وـژنری اور پاکستان کے معاملات کا فہم رکھنے والے اصول پسند سیاستدان کا احساس دلایا ہے بلکہ جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کو ناامیدی سے بھی بچایا ہے ۔اس کے حافظے میں پاکستان کی تاریخ کا ہر ورق محفوظ ہے جسے سمجھ کر وہ عمل کرنے کے لئے پر عزم ہے۔بدتہذیبی کو بڑائی سمجھنے اور اس پر اِترانے کی فضامیں وہ ایک باشعور سیاستدان بن کر سامنے آیا ہے جو صرف ماضی کے واقعات پر طنز نہیں کرتا بلکہ اس کی جیب میں مستقبل کا خاکہ بھی ہے۔یقیناً پاکستان کو اس وقت ایسی نوجوان قیادت کی ضرورت ہے جو ہوش اور جوش سے مزین ہو۔ جو صرف زبانی جمع خرچ اور حکمرانی کے لئے کوشاں نہ ہو بلکہ جس کے پاس ایسا ٹھوس عملی منصوبہ بھی ہو جو ملک کو درپیش چیلنجز سے نکال کر ترقی کی ڈگر پر رواں کر سکے۔ اگلے انتخابات میں وقت ثابت کرے گا کہ پنجاب نہ کل ضیا الحق کے ساتھ کھڑا تھا نہ آج۔اس نے کوڑے کھانے قبول کئے مگر بھٹو کے خلاف جانے پر رضامند نہ ہوا۔آج جبر کی وہ فضا باقی نہیں۔دفاعی ادارہ بھی اب ضیا کے نظریات کو اون نہیں کرتا اسلئے آج پنجاب اپنی معاشی، ثقافتی ترقی اور روشن خیالی کی فضا کی بحالی کے لئے زیادہ پرجوش ہے۔وہ ہر اس سوچ کے ساتھ قربت رکھتا ہے جو عوامی اور وفاقی اصلاحات کی آئینہ دار ہے۔

پیپلز پارٹی پاکستان کی پہلی سب سے بڑی وفاقی جماعت تھی اور اب تک ہے۔ایک ایسی جماعت جولوگوں کو تقسیم کرنے کی بجائے قومی وحدت میں جوڑنے کی تدبیر کرتی ہے۔جو ملک میں ادب و ثقافت اور تصوف کے ذریعے خیر کی قدروں کی پیامبر ہے۔بلاول بھٹو نے اپنی جماعت کی تمام نظریاتی اساس اپنے دل میں بھر رکھی ہے۔ وہ اخلاقی، روحانی اور سیاسی قدروں کا پاسدار ہے۔ میرے جیسے صوفیا کے فلسفے سے جڑت رکھنے والے انسان کیلئے وہ ایک روشن امید ہے۔جو لوگوں کی عزت کرنا جانتا ہے۔ خدمت خلق اور عوامی بھلائی جس کا منشور ہے۔مجھے یقین ہے جن چراغوں کی ہمیں آرزو تھی وہ بلاول جیسے رہنما کے ہاتھوں فروزاں ہوں گے۔

تازہ ترین