• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ ایاز کی آپ بیتی " دنیا ساری خواب " کی اردو تالیف وترجمہ اسلم راحیل مرزا نے کیا جو 1998 میں سب سے پہلے شائع ہوا۔ اس ترجمے سے اردو دان قارئین کو شیخ ایاز کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ اس کے بعد محکمہ ثقافت حکومت سندھ نے شیخ ایاز کی چار کتابیں (1) پنھل کے بعد (2) سرخ روئے خمار کاک (3) دنیا ساری خواب (4) ساہی وال جیل کی ڈائری ایک جلد میں شائع کیں۔ ان چاروں کتابوں کے اردو ترجمے کرن سنگھ نے کیے، جسے اس وقت کے سیکرٹری محکمہ ثقافت شمس جعفرانی نے ان کی اشاعت کو ممکن بنایا۔ دراصل یہ شیخ ایاز کی نثری تخلیقات کا اردو ترجمہ پیش کرنے کا ایک منصوبہ تھا جس کی پہلی جلد میں یہ چاروں کتابیں یکجا کرکے اردو قارئین کے لیے سہولت مہیا کی گئی۔ زیرِ نظر مضمون میں اس آپ بیتی کے کچھ حصے پیش کیے جارہے ہیں جو یقیناً قارئین کی معلومات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔

شیخ ایاز اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :

" میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنی شخصیت کی بھر پور عکاسی کسی ڈاکٹر ژواگو جیسے ناول میں ہی کرسکتا ہوں۔ میری یہ آپ بیتی ایک گھومنے پھرنے سیلانی کی مانند ہے جس کے رنگارنگ آئینے منتشر رنگوں کے نقش ونگار تو بنا رہے ہیں مگر ان میں کوئی تسلسل نہیں ہے۔ " شاعری میں تسلسل زلف جاناں کی علامت بھی ہوتا ہے اور زنجیر کی بھی, مگر میں اپنی عمر کے اس حصے میں پہنچ چکا ہوں کہ ان دونوں سے کنارہ کش رہوں تو بہتر ہے "

شیخ ایاز بنیادی طور پر شاعر تھے اس سے اُن کی نثر اور خطوط میں بھی شاعری کا رنگ ملتا ہے اور خود اُن کے بقول رنگوں کے نقش ونگار بکھرتے نظر آتے ہیں۔

شیخ ایاز مارچ 1923 کو شمالی سندھ کے پُرانے شہر شکارپور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے گھرانے میں سندھی کے علاوہ اردو فارسی کا بھی خوب چلن تھا، انہیں بچپن سے ہی خوب, کتابیں میسر آئیں۔ شیخ ایاز کی دادی میرٹھ سے تعلق رکھتی تھیں اس لیے اُردو زبان اس خاندان میں اجنبی نہیں تھی۔ انہوں نے شروع کی تعلیم شکارپور سے ہی حاصل کی اور پھر کراچی سے بی اے, ایل ایل بی اور ایم اے کیا۔

کراچی میں سندھی کے چند مشہور ادیب مثلاً کیرت بابانی, شخ عبدالرزاق, راز گو بند ملہی, موہن پنجابی اور نرائن شیام ان کے دوست بن گئے۔ اس دوران شیخ ایاز ترقی پسند تحریک کی طرف راغب ہوئے اور سوبھو گیان چندانی, عشی ودھیارتی اور گلاب بھگوانی کے ساتھ رہے۔ شیخ ایاز نے اس دور میں ہی انقلابی گیت لکھنے شروع کردیے تھے اور چند نظمیں اور افسانے بھی لکھے۔ " سفید وحشی " کے مجموعے میں اُن کے ابتدائی افسانے شامل ہیں۔ لیکن ان کے تمام افسانے " مسافر مکرانی " نامی کتاب میں شامل ہیں جو 2012 میں کوئٹہ سے شائع ہوئی۔

کتاب کے سرورق پر " سندھی سے ترجمہ ننگر چنّا " لکھا گیا ہے،جب کہ مترجم میں ننگر چنّا نے اعتراف کیا ہے کہ " شیخ ایاز کے چند افسانے میں برسوں پہلے بلوچستان میں دوران سکونت ترجمہ کرچکا تھا،جب کہ بقیہ تمام افسانے عابد میر کے رہین منت ہیں۔ مجموعے میں شامل 23 افسانوں میں کہیں بھی یہ درج نہیں کیا گیا کہ کون سے افسانے ننگر چنّا نے ترجمہ کیے ہیں اور کن کو عابد میر نے اُردو میں ڈھالا ہے۔ بہرحال شیخ ایاز نے افسانے لکھنا جلد چھوڑ دیے اور اُن کے کئی ھندو دوست بھارت جانے پر مجبور ہوگئے۔ شیخ ایاز کے نئے دوستوں میں اس وقت ظہور نظر, جاوید قمر اور کامریڈ اشرف کا ذکر شیخ ایاز اپنی آپ بیتی میں کرتے ہیں۔

1951 میں وہ واپس جاکر سکھر میں وکالت کرنے لگے اور ساتھ ہی سندھی زبان میں ترقی ادب کی نشر واشاعت کے لیے " حبیب پبلی کیشنز " کے نام سے ادارہ قائم کیا جس نے مقبول صدیقی, بشیر موریانی اور دیگر ادیبوں و شعراء کی کتابیں شائع کیں، پھر شیخ ایاز سندھی کے ساتھ اُردو میں بھی شاعری کرنے لگے اور 1954 میں " بوئے گل نالہ دل " کے عنوان سے اُن کی اُردو شاعری کا مجموعہ اُن کے دوست آفاق صدیقی نے مرتب کر کے شائع کیا۔ 

اسی دوران شیخ ایاز کی اردو نظمیں اور منظوم ترجمے مشہور جرائد جیسے " افکار " , " مشرب " اور " ساقی " وغیرہ میں شائع ہوتے رہے۔ آفاق صدیقی کے ساتھ مل کر انہوں نے سکھر میں سندھی اُردو کانفرس بھی منعقد کرائی،پھر سندھ کے مایہ ناز شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے رسالے کا منظوم اُردو ترجمہ کیا جو اُن کا شاہ کار ادبی کارنامہ سمجھا جاتا ہے،گو کہ اُن کے بعد آغا سلم نے بھی شاہ کے رسالے کا اردو ترجمہ کیا۔

شیخ ایاز کی شاعری کا دائرہ بہت وسیع ہے جس میں عوامی گیت, وائیاں, دوہے, بیت, مقفی اور معر ا کے ساتھ آزاد نظمیں اور غزلیں سب ہی کچھ شامل ہے۔ ایاز کے دیہاتی گیت سندھی شعر و ادب میں کئی طرز و اسلوب لے کر آئے۔ جہاں قدیم شاعری میں ایرانی و فارسی کے ساتھ عربی اصطلاحیں عام تھیں وہاں شیخ ایاز نے سندھ کے مقامی رمز و کنایے استعمال کیے اور سندھ کے اپنے استعارے بہت خوب صورتی سے جوڑے۔ سندھی شاعری کو گهسی پٹی اور دقیانوسی سوچ سے نکالا۔ وہ شروع سے ہی فرقہ وارانہ اور تعصب پر مبنی ادب و سیاست کے خلاف تھے اور مذہبی منافرت پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ مثلاً وہ اپنے افسانوں کے مجموعے کے مقدمے میں لکھتے ہیں۔ " ہم سندھی ہندو اور مسلمان ایک قوم ہیں اور قومیت کے لحاظ سے ہم ہندو ہیں نہ مسلمان ہم صرف سندھی ہیں "

ایاز کی سندھی شاعری کی دو کتابوں " بهنورا بھرے اڑان " جسے بہترین سندھی شاعری کا ادبی انعام بھی ملا تھا اور " کاندھے دھرا ساو " پر پابندی لگائی گئی پھر اُن کے خطوط " سندھی ادبی بورڈ " کے سہ ماہی جریدے " مہران " میں چھپ چکے تھے۔ شیخ ایاز کی کتابیں دینا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ عوامی سیاست میں سرگرم حصہ لیتے ہوئے انہیں تین بار جیل کی قید بھی کاٹنا پڑی۔ مگر فیض احمد فیض کی طرح ایاز نے بھی جیل کے دنوں کو نظم و نثر میں قلم بند کیا۔ انہوں نے جیل کی ایک ڈائری بھی لکھی جو زیادہ تر سکھر سنٹرل جیل میں قید کے دوران لکھی گئی۔ اس کے علاوہ ساہی وال جیل کی ڈائری بھی نظر بندی کے دوران قرطاس پر منتقل کی گئی۔

1976،میں بھٹو صاحب نے اپنی وزارت عظمیٰ کے عروج کے دنوں میں شیخ ایاز کو سندھ یونی ورسٹی کا وائس چانسلر بنادیا۔ اسلم رحیل مرزا نے شیخ ایاز کی آپ بیتی کے " حرف آغاز " میں غلط لکھا ہے کہ " جب فوجی آمریت کی مارشل لائی حکومت مسلّط کردی گئی تو اس کے بعد شیخ ایاز کو بھی ان کے عہدے سے بر طرف کردیا گیا۔ ڈاکٹر انور فگار ھکڑو اپنی کتاب " شیخ ایاز : شخصیت اور فن " میں لکھتے ہیں۔ " شیخ ایاز 22 جنوری 1980 کو اپنی عہدے کی مدت پوری کرنے کے بعد سندھ یونی ورسٹی اور جامشورو کو الوداع کہتے ہوئے سکھر واپس چلے آئے۔

اپنی آپ بیتی کے کے شروع میں ہی شیخ ایاز لکھتے ہیں کہ، کس طرح اوائل عمر میں ہی وہ بڑی شخصیات جیسے شیکسپئر, تالتائی, ٹیگور, ایمرسن, برناڈ شاہ اور گاندھی وغیرہ سے متعارف ہوئے۔ لیکن سب سے زیادہ ان کے محلے میں رہنے والے ایک برہمو سماجی نے متاثر کیا جو راجہ رام موہن رائے اور کیشت چندر سین کا پیروکار تھا۔ برہمو سماج والے بُت پرستی کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور اس کائنات کی ازلی حقیقت کو " ماتا " کے نام سے موسوم کرتے تھے، جسے اُردو میں " مادر فطرت " یا انگریزی میں " مدر نیچر " کہا جاتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ، شیخ ایاز کے زیادہ تر رشتے دار مسلم لیگی تھے لیکن وہ خود ترقی پسند سیاست کی طرف مائل ہوئے۔ 

ان کے ایک عزیز شکارپور مسلم لیگ کے صدر اور " مسجد منزل گاہ " کے رہ نما تھے۔ شیخ ایاز لکھتے ہیں کہ " اگر یہ تحریک نہ ہوتی تو مرحوم اللہ بخش سومرو شہید نہ ہوتے اور نہ سندھ اسمبلی سے قرارداد پاکستان منظور ہوتی۔ شیخ ایاز اپنی آپ بیتی میں بتاتے ہیں کہ، جب شکارپور سے ہندوؤں کی نقل مکانی شروع ہوئی تو ہندو اپنے مال و اسباب سے بھرے ہوئے مکانات چھوڑ کر گھروں کو تالے لگا کر بھارت جانے لگے، اس امید پر کہ فسادات جلد ختم ہوجائیں گے اور وہ واپس اپنے گھروں کو آجائیں گے۔ہندوؤں کی نقل مکانی کے بعد رات کے وقت میرے رشتے دار چوری چکاری کے لیے نکلتے تھے اور ہندوؤں کے گھروں کے تالے توڑ کر اُن کا مال و اسباب لے آتے تھے۔ 

اُن چوروں کو شیخ ایاز منع کرتے رہتے تھے۔ زیادہ تر دوست نکل مکانی کرگئے،قریب ترین دوست ابراہیم جویو اور سوبھو گیان چندانی رہ گئے۔ اسی دوران ایک اور بڑے سندھی دانش ور حشو کیول رامانی کو ملک بدر کردیا گیا۔ حشو شیخ ایاز سے تقریباً دس سال بڑے تھے اور انہوں نے اس وقت سندھ ترقی پسند تحریک میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت شیخ ایاز کے ایک اور قریبی دوست مونس تھے۔ غالباً اُن ہی کے نام پر ایاز نے اپنے ایک بیٹے کا نام مونس رکھا تھا۔ بقول شیخ ایاز جب انجمن ترقی پسند مصنفین کراچی کی بنیاد رکھی گئی تو ظہور نظر کو اس کا پہلا سیکریٹری بنایا گیا،جو بعد میں خاصے معروف شاعر بنے، ان کے بارے میں شیخ ایازنے آپ بیتی میں کئی دل چسپ واقعات تحریر کیے ہیں۔ 

وہ یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ اُردو کے مشہور ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری ہندوستان سے کراچی کے مختصر دورے پر آئے تو انجمن ترقی پسند مصنفین نے اُن کا شایانِ شان استقبال کیا۔ ایک دل چسپ واقعہ یہ ہوا کہ ظہور نظر سردار جعفری کو یہ کہہ کر لے گئے کہ، عصمت چغتائی کی بہن سے ملاقات کرلیں جو کراچی کے کسی فلیٹ میں رہتی ہیں۔ جب ظہور نظر شیخ ایاز اور سردار جعفری کو لے کر پہنچے تو عصمت چغتائی کی مذکورہ بہن نے پردے کے باعث سامنے آنے سے انکار کردیا، جس پر سردار جعفری خاصے جزبز ہوئے اور غصے میں بڑبڑاتے ہوئے ظہور نظر کو سخت ست کہا کہ غالباً عصمت چغتائی کی کوئی بہن نہیں ہے اور یہ صرف ڈرامہ ہے اور جعفری صاحب کا وقت بلاوجہ ضائع کیا گیا۔

شیخ ایاز اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں " سائنسی فکر و نظریے سے مجھے بے حد محبت ہے۔ مگر میں سائنس اور شاعری میں اس قسم کا کوئی تضاد بھی محسوس نہیں کرتا جس طرح لیونارڈو ڈا ونچی نے مصوری اور سائنس میں بنیادی تضاد محسوس کیا تھا۔ لیکن میں لیونارڈو کی طرح سائنس دان نہیں ہوں اس کے نام کو درمیان میں لاکر کسی, قسم کی بے جا انانیت کا مرتکب ہونا نہیں چاہتا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ میں اپنے کئی اشعار، مونا لیزا کی نذر بڑی عقیدت سے کرسکتا ہوں "

آپ بیتی میں ہمیں یورپ کے مصوروں کے تذکرے بھی ملتے ہیں اور شاعروں کے ساتھ فلسفیوں کے بھی۔ سندھ کے دانش وروں میں لطف اللہ بدوی کا ذکر بھی بڑی دل چسپی سے کرتے ہیں۔ بدوی صاحب جو پروفیسر بدوی بھی کہلاتے تھے، شیخ ایاز سے دو سال بڑے تھے لیکن صرف سنتالیس سال کی عمر میں (1968 (میں فوت ہوگئے۔ وہ سندھی کے شاعر, مصنف, ناول نگار اور محقق تھے مگر شیخ ایاز انہیں " نیم شاعر " گردانتے تھے۔ شیخ ایاز ایم این رائے کے بارے میں بھی کھل کر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ " ایم این رائے سائنسی سوشلزم کا قائل تھا اور پان اسلام ا زم کی انگریز دشمنی کو کوئی سیاسی اہمیت نہ دیتا تھا اور نہ ہی وہ مہاتما گاندھی یا سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کی آزادی کی تحریک کو کسی جمہوری انقلاب کی تحریک سمجھتا تھا۔ 

ایم این رائے کا خیال تھا کہ، تاریخ نے مشرقی سرمایا دار سے مغربی سرمایہ داری والا کردار اب چھین لیا ہے۔ اس کے باوجود اس کے انقلاب کا اس زانچے پر یقین تھا جو کارل مارکس نے تیار کیا تھا۔ " یاد رہے کے ایم این رائے ایک بنگالی انقلابی اور مارکس دانش ور تھے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد روائتی مارکس ازم چھوڑ کر انسان دوستی اور لبرل ازم کے قریب ہوگئے تھے۔ انہوں نے 67 سال کی عمر میں دہرہ دون میں انتقال کیا۔

شیخ ایاز کی آپ بیتی مختصر مگر معلومات سے بھرپور ہے، اس میں آپ کو باکو نن کا تذکرہ ملے گا اور ھرزن کا بھی, صوفی جیٹھ مل کا ذکر بھی ملے گا اور رام پنجوانی کا بھی۔ اس کے علاوہ " جمیعت الشعرا سے لے کر متحدہ ہندوستان کی ریڈیکل ڈیموکریٹک پارٹی تک ایسے چیدہ چیدہ نقش و نگار ہیں، جن کا پڑھنا آج کے ہر ایسے شخص کے لیے کار آمد ہوگا جو پاکستان، بالخصوص سندھ کی سیاست, ادب اور تاریخ کے مزید کچھ پہلو سمجھنا چاہیں۔ شیخ ایاز کی کتابوں کی تعداد درجنوں میں ہے اور کم از کم چالیس کتابیں تو باقاعدہ شائع ہوچکی ہیں۔ وہ آخر وقت تک مُسلسل لکھتے پڑھتے رہے۔ کراچی میں پچھتر برس کی عمر میں انتقال ہوا۔بلاشبہ شیخ ایاز اس دھرتی کے ایک مایہ ناز سپوت تھے ،جنہوں نے اپنے علم و عمل, ادب اور دانش وری سے کئی نسلوں کو فیض یاب کیا اور کرتے رہیں گے۔