• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

متعدد ویب سائٹس دیکھ رہا ہوں۔ کہیں سے یہ نوید نہیں مل رہی ہے کہ پاکستانیوں کی زندگی میں آسانیاں میسر ہوں گی یا پاکستانیوں کے رہن سہن کا معیار بلندہوگا اور یہ حالیہ مشکلات کب تک درپیش رہیں گی۔؟ عالمی بینک بھی یہی کہہ رہا ہے کہ پاکستان کو بہت سے اقتصادی خطرات کا سامنا رہے گا، ایشیائی ترقیاتی بینک کا بھی فرمان یہی ہے کہ پاکستان کی معیشت، ماحولیات اور زراعت کو کئی چیلنجوں سے نمٹنا پڑے گا۔ آبادی بڑھتی جائے گی لیکن سالانہ آمدنی نہیں بڑھے گی بلکہ گھٹنے کے امکانات ہیں۔ البتہ سب عالمی مالیاتی ادارے عام پاکستانیوں کی قوت مدافعت کی تعریف کررہے ہیں کہ یہ مشکل حالات کا جس پامردی اور استقامت سے مقابلہ کرتے ہیں بہت کم قومیں ایسا کرپاتی ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی کو بھی اس بد قسمت ملک کے حکمراں طبقوں یا اشرافیہ کی طرف سے عوام کے حق میں اپنے فیصلے کرنے کی امید نظر نہیں آتی۔ سب کا تجزیہ یہی ہے کہ مملکت خداداد کے ارباب اختیار کی ترجیحات میں ہی نہیں ہے کہ وہ 22 کروڑ کی بد حالی کو خوشحالی میں بدلنے کیلئے کوئی پالیسیاں سوچ رہے ہوں یا اپنے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں اس بارے میں بات کرتے ہونگے یا قدم اٹھاتے ہونگے۔ ساری تگ و دو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے اسٹاف لیول کے معاہدےپر دستخطوں کیلئے ہے۔ حالانکہ اس سے مزید قرضوں کا بوجھ ہی ملے گا۔ آئی ایم ایف سے طویل المیعاد راحت نہیں مل سکتی۔

ایک سال میں کوئی ایسی میٹنگ نہیں ہوئی، جس میں یہ زیربحث آیا ہو کہ پاکستان کے خزانے، زراعت ،تعلیم کے وزراء اپنے قدرتی وسائل، اپنے انسانی وسائل پر انحصار کرکے ملکی معیشت کو بہتر کریں ۔ مزید قرضے نہ چڑھائے جائیں۔ کہیں ایسی خبر پڑھنے کو نہیں ملتی۔ نہ وزیر خزانہ، وزیر اعظم، وزیر منصوبہ بندی کا کوئی طویل المیعاد لائحہ عمل پڑھنے یا سننے کو سامنے آیا کہ موجودہ مشکل معاشی سال سمیت آئندہ دس سے پندرہ سال کے مسائل اپنے وسائل کی بنیاد پر حل کے مراحل کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ مختلف برسوںمیں ہمیں مختلف اقدامات کیا کیا کرنے چاہئیں۔

بین الاقوامی ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ مالی سال کی 6فیصد شرح نمو کے مقابلے میں 2023 کی شرح نمو 0.6فی صد دکھائی دے رہی ہے۔ 2024 میں شرح نمو 2 فی صد کہی جارہی ہے۔ وہ بھی اس صورت میں اگر بڑی اقتصادی اصلاحات کی جائیں۔ معیشت کو مستحکم کیا جائے۔ ابھی تک تو گزشتہ سیلاب کے اثرات سے پورا علاقہ بحال نہیں ہوا ہے۔ آئندہ سیلابی خطرات سر پر منڈلانے لگے ہیں۔ بارشیں شروع ہوگئی ہیں۔ ایک فصل گزشتہ سیلاب سے تباہ ہوئی ہے۔ دوسری فصل کیلئے سیلاب زدہ زمین ابھی تک قابل کاشت نہیں ہوئی ہے۔ ان ہی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2001 سے 2008 کے دَور میں کچھ پاکستانی غربت کی لکیر سے اوپر آئے تھے۔ اس کے بعد زیادہ تر لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہی جارہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر حکومت صرف ایڈہاک بنیادوں پر اقدامات کررہی ہے۔ طویل المیعاد منصوبہ بندی نہیں ہے۔ اگر ایک حکومت ایسا کچھ کرتی ہے تو آنے والی حکومت سارے منصوبے بدل دیتی ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ بد حال معیشت کی ذمہ داری خود کوئی قبول نہیں کرتا۔ دوسری حکومت پر یہ بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔

کووڈ 19 کی وجہ سے دنیا بھر کی معاشی ترقی متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان کی اقتصادی بنیاداتنی طاقت ور پہلے ہی نہیں تھی۔ اسلئے کووڈ 19 نے اسے دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ متاثر کیا ہے۔ عالمی کساد بازاری کے مقابلے میں جس سیاسی اتحاد اور قومی استحکام کی ضرورت تھی۔ اس کی بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی گئیں۔ اداروں نے بھی اس سال میں زیادہ تدبر کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پاکستان کو زرعی شعبے میں برتری حاصل تھی۔ زرعی یونیورسٹیوں کی تحقیق اور مشاورت کے باوجود گندم، چاول، کپاس کی فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار پر توجہ نہیں دی گئی۔ پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی۔ مینو فیکچرنگ میں پانی بجلی گیس کی کمی کی وجہ سے زوال آیا۔ اسلئے برآمدات متاثر ہوئیں۔ اس سال سب سے بڑی مشکل یہ رہی کہ زر مبادلہ کے ذخائر بہت کم ہوتے گئے۔ پاکستانی کرنسی ڈالر کے مقالے میں بہت گرتی رہی۔

ان معاشی اشاریوں کو دیکھ کر عالمی اقتصادی اداروں نے پاکستان کی اقتصادی ترقی کو منفی قرار دیا ہے۔ ہماری قرضہ لینے کی اہلیت بھی منفی کہی گئی۔ کیونکہ ہمارے قرضوں کی ادائیگی کا تناسب مطلوبہ ضرورت کے مطابق نہیں تھا عالمی ادارے کسی ایک حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دے رہے۔ان کا تجزیہ یہ ہے کہ پاکستان کے معاشی نظام میں دیرینہ اندرونی ساختی کمزوریاںہیں۔ جو مختلف سیاسی اور فوجی حکومتوں کی غفلتوں سے پروان چڑھتی رہی ہیں۔ دونوں طرز کے حکمرانوں کی ترجیحات میں اقتصادی ڈھانچے کو تقویت نہیں دی گئی۔ اس طرز حکمرانی سے پاکستان کے عوام سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ان کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی ہے۔ حکمراں طبقے اندازہ ہی نہیں کرسکتے کہ عام پاکستانیوں کی اکثریت کس طرح دن رات گزارتی ہے۔ آس پاس کے ملکوں میں اقتصادی بہتری آئی ہے۔ بھارت بہت آگے نکل گیا ہے۔ بنگلہ دیش۔ حتیٰ کہ افغانستان میں بھی اقتصادی بد حالی ایسی نہیں ہے۔ وہاںمشکلات پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان جیسے ممالک کو آئندہ بھی زیادہ خطرات لاحق ہیں کیونکہ متعلقہ محکموں کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ انسانی اہلیت کی کمزوریاں اپنی جگہ ہیں کہ متعلقہ وزراء، اداروں کے سربراہ اس قابل ہیں یا نہیں۔ ان کو ان معاملات کی تربیت ملی ہے یا نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جن قوتوں اور وسائل سے نوازا ہے۔ ملک کی نوجوان آبادی 60فی صد سے زیادہ، زرعی زرخیزی، انتہائی اہم محل وقوع، سمندر، دریا، معدنی خزانے، ان سے کام نہیں لیا جارہا ہے۔ ملک میں بڑے بڑے اکنامسٹ ہیں۔ غیر ملکی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل اقتصادی ماہرین ہیں لیکن وہ بھی نکتہ چینی کے ماہر بن گئے ہیں۔ وزرائے خزانہ پر تنقید کرتے ہیں۔ لیکن کسی اکنامسٹ نے آئندہ دس پندرہ برس کا مجموعی سیر حاصل لائحہ عمل نہیں بتایا ہے کہ پاکستان کی 2040-2035-2030 کے لئے معاشی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ جس سے عام پاکستانی کی زندگی میں آسانیاں ہوں۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو۔ پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی نہ ہو۔

تازہ ترین