• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو رائے نہیں کہ موجودہ حکومتی اتحاد کمزور سیاست اور بحرانی کیفیت کی گرفت میں ہے۔

 پچھلے پندرہ ماہ سے عمران خان کمال مہارت سے گِری ساکھ بحال کر چکے ہیں۔ اگرچہ اپنی سیاست میں نئی روح پھونک چُکے، تو پھر عمران خان کی سیاست آج بے دم اور بے دست و پا کیوں ہے۔

عمران خان کے ہتھے چڑھی نئی نویلی مقبول سیاست دو ستونوں پر استوار تھی، ’’امریکہ نے میری حکومت کیخلاف سازش کی، اسٹیبلشمنٹ اندر غدار ٹولے نے امریکی سازش کو عملی جامہ پہنایا‘‘۔

اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ مخالف بیانیے کو پاکستان میں رفعتیں نہ ملیں، یہ کیونکر ممکن تھا۔ پہلے مرحلے میں ہی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کو غیر معمولی پذیرائی ضرور ملی، ایسا بیانیہ انتخابی سیاست سے دور لے گیا۔ اس بیانیہ کی کامیابی نے اسٹیبلشمنٹ کا ستیاناس کرنا تھا یا بصورت ناکامی عمران خان کا ملیا میٹ ہونا تھا۔

بیانیہ کے سائے میں سوشل میڈیا کے ذریعے تین نعروں کو مبالغہ آمیز پروپیگنڈا کے ذریعے مقلدین کا اوڑھنا بچھونا بنا ڈالا۔ تین نعرے: فرضی سوال پر فرضی جواب،ABSOLUTELY-NOT" " نے پذیرائی پکڑی تو موصوف بھانپ گئے کہ قوم کو جذباتی نعروں پر ورغلانا ممکن ہے۔

دوسرا نعرہ ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘، یعنی کہ عسکری قیادت امریکی غلام ہے، نتیجتاً ریاست امریکی غلام ہے۔ تیسرا نعرہ ’’حقیقی آزادی کا سفر‘‘ خواب بنا کر بیچ ڈالا۔ ’’نیا پاکستان پروجیکٹ‘‘ تعمیر کی شاندار ناکامی کے بعد اپنے ماننے چاہنے والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بیانیہ تبدیل کرنا بنتا تھا۔

 ’’غلامی سے آزادی کا سفر‘‘ کے نئے سبز باغ دِکھانے کے علاوہ چارہ نہیں تھا۔ آج تینوں نعرے زمیں بوس، تلاشِ گمشدہ کی بھول بُھلیوں میں گُم ہو چکے۔ ایک طرف اندھے مقلدین کو حقیقی آزادی کے حصول کا چکا چوند چکمہ دیا تو دوسری طرف امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ سے PLEA BARGAIN یعنی پس پردہ معافی تلافی یعنی کہ NRO کیلئے بھرپور کوششیں جاری رکھیں۔

مراسلہ لہرانے کے دو ماہ اندر کے ڈونلڈ لُو (سازش کا مرکزی کردار) کو PTI امریکہ نے اپروچ کیا، وضاحتیں دیں۔ تب سے امریکی خوشنودی کیلئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے۔ انہی دِنوں امریکی لابنگ فرم کی 30 ہزار ڈالر ماہانہ پر خدمات پر حاصل کیں۔

اگلے مرحلے میں CIA کا اثاثہ رابن رافیل بنی گالہ آ دھمکی، چند دن ملاقات چھپاتے رہے، بالآخر بتانا پڑ گیا۔ CIA سکہ بند ایجنٹ زلمے خلیل زادکا کودنا بھی بنتا تھا۔ عمران خان کے حق میں اور وطنی اندرونی معاملات میں مداخلت کی بکواس کر ڈالی۔ تب سے چل سو چل، یہودی ممبر کانگریس بریڈ شرمین اور دیگر کانگریس ممبران سے رابطے کیلئے سر توڑ کوششیں عروج پر پہنچیں۔ PTI کا امریکی سفارت خانہ اسلام آباد میں سفیر تک رسائی اور تابڑ توڑ میٹنگز کرنا معمول بن چُکا ہے۔ یہ سامنے، پس پردہ کیا پاپڑ بیلے ہونگے، معلوم نہیں۔ ساری تگ و دو اور جستجو کے بعد عمران خان بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ سازش امریکہ نے نہیں کی، جنرل باجوہ نے پروان چڑھائی۔ امریکہ کیلئے عام معافی اور جنرل باجوہ کیلئے کورٹ مارشل کی ڈیمانڈ بنتی تھی۔

اسٹیبلشمنٹ سے اس موضوع پر صَرف نظر کرنا بھی بنتا تھا۔ انواع و اقسام کی وارداتوں اور جھوٹ سے عمران خان نے خوب فائدہ اُٹھایا اور ملکی سیاست پر گرفت مضبوط کر لی۔ اپنے ہی چاہنے والوں کو دھوکا دینا میرےلئے تکلیف کا باعث بنا۔ کیسے بھولوں کہ اقتدار ہاتھ سے جاتے دیکھا تو جاتے جاتے وطن عزیز پر اقتصادی تباہ کاری کی بارودی سُرنگیں بچھا دیں۔

 IMFسے معاہدہ توڑ کرپاکستان کو دیوالیہ بنانے کی مذموم کوشش کر ڈالی۔ ڈھکا چھپا نہیں کہ شوکت ترین نے وزیر خزانہ پنجاب اور KP کو اُکسایا کہ ریاست کیخلاف سازش پر کمر کَس لیں کہ پاکستان تباہ ہو گا تو عمران خان کا کاروبارسیاست پروان چڑھے گا۔

شوکت ترین کی ریاست مخالف گفتگو اور IMF سے ممکنہ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی گھناؤنی سازش رنگے ہاتھوں پکڑی گئی۔

پچھلے چند مہینوں سے PTI رہنما جوش و خروش سے امریکہ اور IMF سے دوبارہ رابطے کر رہے ہیں۔ اپنی وفاداری کا یقین دِلا رہے ہیں۔IMF سے اپنی وفاداری بشرطِ استواری کا کامل یقین دلارہے ہیں۔

 آج امریکی مراسلہ، امریکی سازش جیسے لغو نعروں سے عمران خان اپنا پیچھا چھڑوا چکے ہیں۔ نئی نویلی مقبولیت کو دبوچے امریکہ کی مدد لینے کیلئے تڑپ رہے ہیں۔

دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کو بھی راضی کرنے کیلئے سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ بہتر تعلقات کی تگ و دو میں دن رات ایک کر رکھا ہے ۔ شک نہیںکہ امریکی مدد کے بدلے قوم، ملک، دین بیچنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کو بھی ایسے عناصر اور کرداروں کی تلاش جووطن عزیز کی فروخت میں پس و پیش سے کام نہ لیں۔

حیرت نہیں رہنی، آنے والے دنوں میں امریکہ مع بھارت عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کیلئے ہمہ وقت میسراور دستیاب ہوں۔ وطن عزیز میں امریکی دلچسپی سوائے عدم استحکام اور سالمیت کو متزلزل رکھنے کے اور کچھ نہیں۔ نواز شریف کیخلاف دس والیم جو CIA کی مدد سے تیار ہوئے ، وطن عزیز کے حالات کو یہاں تک پہنچانے کا نکتہ آغاز تھا۔

نئے آرمی چیف کی آمد کے بعد موصوف کنفیوژن میں کہ دباؤ بڑھائوں یا پاؤں پکڑوں۔ تب سے" جمہوریت اور آئین" کی پاسداری کے نام پر دباؤ مِنت ترلے بیک وقت جاری ہیں۔

قومی اسمبلی کے استعفیٰ ہوں، 25مئی کا لانگ مارچ، قاتلانہ حملہ، الیکشن کمیشن سے نااہلی،26 نومبر لانگ مارچ، دو اسمبلیوں کی تحلیل یاجیل بھرو تحریک، ایک موقع ایسا نہیں کہ عوام کو ریاست کیخلاف سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوئے ہوں۔

 چنانچہ حکومت اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے میں ناکام رہے ہیں۔ البتہ عدلیہ پر دباؤ بذریعہ ’’جتھہ انصاف کا حصول‘‘ کچھ نہ کچھ کام دِکھاتا گیا۔ لے دے کے عدلیہ میں سہارے کو ڈھونڈ لیا، لگتا ہے آج عدلیہ بھی ساتھ چھوڑنے کو ہے۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہو سکتا ہے، غیر معمولی مقبولیت کے باوجود اپنی ناقص حکمت عملی کی بدولت موصوف کی سیاست بے رنگ، بے بُو، بے ذائقہ اور بے اثربن چکی۔

قطعاً حیرت نہیں کہ عمران خان کی سیاسی پسپائی کا بہیمانہ سفر شروع ہو چُکا ہے، مکمل گھیرے میں آ چُکا ہے۔ ساری زندگی مہرہ بن کر جھوٹ بولا، غلط بیانی سے مستقبل سنوارا۔ آج اللہ کی بے آواز لاٹھی کی زد میں، حیف! عمران خان سیاست بن کِھلے مرجھانے کو ہے۔

تازہ ترین