• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں سے ملنے ملانے۔ ان کے سوالات کے جوابات دینے کے لمحات۔ بہت سے احباب کراچی میں براہِ راست ملتے ہیں۔ شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ ہر اتوار کو یاد دلادیتے ہیں۔ یہ کوشش تو ہماری کامیاب رہی ہے۔ لیکن دوسری کوشش کہ عصر کے بعد اپنے پڑوسیوں اور محلے والوں سے ملیں۔ چاہے اپنی مسجد میں ہی کسی کونے میں بیٹھ جائیں۔ اس سلسلے میں کوئی تائید کم ہی ملتی ہے۔ تجویز کو سب پسند کرتے ہیں۔ لیکن مصروفیات شاید آڑے آرہی ہیں۔ آس پڑوس میں اجنبیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ملنے بات کرنے کی ،سلام کہنے کی رسم ہی ہوا ہوگئی۔ لیکن میں صدق دل سے سمجھتا ہوں کہ ہمارے بحران محلے داری سے ہی ختم ہوسکتے ہیں۔ ملک کے اصل مالک یعنی آپ جب آپس میں ملیں گے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں گے تو ملک محفوظ ہوگا۔ ملکی سلامتی کو تقویت پہنچے گی۔ واہگہ سے گوادر تک استحکام ہوگا۔ اب تو جدید ترین ٹیکنالوجی ہماری مدد کرنے کو تیار ہے۔ واٹس ایپ گروپ سے بھی محلے دار ایک دوسرے کے دکھ درد سے آشنا ہوسکتے ہیں۔

ہمیں ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے 5کروڑ سے کچھ اوپر کی آبادی کے ملک جنوبی کوریا میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہماری طرح اسے بھی اپنے پڑوسی شمالی کوریا سے خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ میزائلوں کی آزمائشیں ہوتی ہیں۔ کوریا کی جنگ سے اس کے بھی دو حصّے ہوگئے تھے۔ شمالی کوریا کمیونسٹ ہوگیا۔ خاندان منقسم ہوگئے۔ سرحدوں پر دونوں کی فوجیں ہر وقت مستعد رہتی ہیں۔ مارشل لا بھی لگتے رہے ہیں۔ لیکن جنوبی کوریا کے لوگوں نے بڑی دلجمعی سے اپنے مسائل کو حل کیا ہے۔ وہاں کی فیکٹریاں صرف اپنے لیے ریفریجریٹر۔ ٹی وی۔ موبائل اور دوسرے برقی آلات نہیں بناتیں پوری دنیا کے لیے تیار کرتی ہیں۔ جاپان کی کاریں دنیا بھر کی سڑکوں پر دوڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ جنوبی کوریا کا گھریلو برقی ساز و سامان کافروں۔ مسلمانوں۔ امیروں۔ غریبوں کے باورچی خانوں۔ ٹی وی لائونجوں میں اور بچوں، بڑوں کے ہاتھوں میں نظر آتا ہے۔ جب یہ وجود میں آیا تو شرح خواندگی صرف 23فی صد کے قریب تھی۔ اب 100میں سے 97 پڑھے لکھے ہیں۔ یہاں کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ مارشل لا میں انہوں نے بڑی ترقی کی ہے۔ کرپشن پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ ان کے مقبول ترین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی بیٹی جو ملک کی صدر بھی منتخب ہوئی۔ وہ کرپشن کے جرم میں طویل سزا کاٹ رہی ہے۔ کوریا موسیقی میں بھی بہت آگے ہے۔ کوریا کے بینڈ تو پاکستانی بچوں میں بھی بہت مقبول ہیں۔ کوریا کی جنگ سے نوزائیدہ پاکستان کے سرمایہ داروں کو بہت فائدہ ہوا تھا۔ ہماری ٹیکسٹائل ان دنوں میں ہی عروج پر گئیں۔

میں یہ ساری تمہید باندھ رہا ہوں۔ وہ جملہ یا نعرہ یا ایک عزم مصمم سنانے کے لیے جو ہر دفتری میٹنگ کے بعد۔ ہر تقریب کے آخر میں۔ گھریلو اجتماع میں، سیاسی جلسوں۔ جلوسوں۔ کارپوریٹ میٹنگوں کے اختتام پر بچے بوڑھے جوان مرد عورتیں بیک آواز کہتے ہیں۔’’ جو دوسری قومیں کرسکتی ہیں۔ ہم بھی کرسکتے ہیں۔ آئیے ابھی سے شروع کریں۔‘‘

پہلے پہل تو مجھے یہ ایسے ہی منافقت سی لگی جو ہم اپنے ہاں دیکھتے ہیں۔ ملّی نغموں پر ہم اتنا شور مچاتے ہیں۔ لیکن جب وقت پڑتا ہے تو سرحدوں پر ہمارا عام سپاہی۔ غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا تو وطن پر اپنی جان نثار کردیتا ہے۔ لیکن ہماری اشرافیہ ۔ وڈیرے۔ جاگیردار۔ ٹھیکیدار صرف مالی فوائد دیکھتے ہیں۔ ملک پر سنگین وقت آئے تو وہ لندن۔ مانچسٹر۔ کیلی فورنیا۔ کینیڈا کا رُخ کرلیتے ہیں۔ اپنی فیکٹریاں بنگلہ دیش یا ملائشیا لے جاتےہیں۔لیکن کچھ دنوں بعد محسوس ہوا کہ یہ جملہ زبانی جمع خرچ نہیں ہے۔ یہ ان کے دل کی آواز ہے۔ جنوبی کوریا والوں نے کرکے دکھادیا ہے کہ جو دوسری قومیں کرسکتی ہیں وہ بھی کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ یہ تو تاریخ کا حصّہ ہے کہ انہوں نے ہمارے پہلے پانچ سالہ منصوبے پر اپنی ترقی کی بنیاد رکھی تھی۔ جنوبی کوریا والے بتاتے ہیں کہ 60 کی دہائی میں انہوں نے پاکستان کی منصوبہ بندی کے سرکاری حکام کی ٹیکنیکل اور اقتصادی مشاورت سے اپنی لازوال صنعتی ترقی کا آغاز کیا۔ اس کے بعد وہ ان عزائم کو عملی جامہ پہناتے رہے۔ ترقی کے راستے طے کرتے رہے۔ مگر پاکستان کسی وجہ سے اپنے ہدف حاصل نہ کرسکا۔ ہمارے سیاستدان ، جنرل دولت مندہوتے رہے۔ ملک کی اکثریت غریب ہوتی رہی۔ پھر کئی دہائیوں بعد یہ دن بھی دیکھنا پڑا کہ 2013میں پاکستان میں ایک سیمینار اسلام آباد میں منعقد ہوتا ہے۔ ’کوریا کی ترقی سے سبق‘ ۔ اسکا اہتمام پاکستان پلاننگ کمیشن کرتا ہے۔ دیکھئے۔ بد قسمتی کہ جنہوں نے ہم سے ترقی کرنا سیکھی۔ چھ دہائیوں بعد ہم ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت محسوس کررہے تھے۔اپنی اولادوں کو بتائیں کہ آج جو بحران ہیں۔ ہمارے سیاسی اور فوجی حکمران۔ معیشت کو بحال کرنے ۔ روپے کو اس کا وقار واپس دلانے اور افراط زر کی بڑھتی شرح کو کم کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ 1977 کے بعدملک میں سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے مل جل کر حکومت کی ہے۔ یہی ہماری تنزلی کے ادوار ہیں۔ ہمارے والد محترم نے 70 کی دہائی میں یہ مطلع کہا تھا۔

وہ جا پہنچے فلک پر اور ہوا میں ان کے رستے ہیں

ابھی تک ہم تنزل آفریں پستی میں بستے ہیں

بیٹیوں بیٹوں کو بتائیں کہ تمہارے بڑے کبھی دوسروں کے لیے ترقی کے راہبر بنتے تھے۔ ہماری سرشت میں، ڈی این اے میں ترقی کے خلیے پائے جاتےتھے۔ بلوچستان میں اندھیرے کی صدیوں میں بھی بڑی روشنی تھی۔ سندھ میں پانچ ہزار سال پہلے کا رہن سہن مثالی تھا۔ پنجاب میں بھی خوبصورت رہائش کی صدیوں کے آثار موجود ہیں۔ کے پی میں بھی بلند معیارِ زندگی کی نشانیاں ملتی ہیں۔ یہ غربت ۔ ناچاقی۔ انتقامی مزاج ہمارا مقدر نہیں ہے۔ ہمارے نوجوان دوسرے ملکوں میں جاکر ترقی کے علم بردار بن جاتے ہیں۔ہم اس بحران سے بھی کامیاب سرخرو ہوکر نکلیں گے۔ یہ بد حالی وردی اور بے وردی انسانوں نے ہی پیدا کی ہے۔ انسان ہی اسے ختم کرسکتے ہیں۔ عالمی بینک کہہ رہا ہے۔ جون 2023ء کے آخر میں ہماری شرح نمو 0.4 فی صد ہوگی اور ہمیں 77 ارب ڈالرز غیر ملکی قرضے ادا کرنے ہیں۔ کیا یہ اعداد و شُمار ہماری ریاست اور حکمرانوں کو خبردار کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ان حقائق کی موجودگی میں کیا ان کی حکمرانی کے انداز یہی ہونے چاہئیں۔جو اس وقت ہیں، ان کے ذہن میں کیا ہماری کامیاب صدیاں نہیں ہیں۔ یہ ایک سال میں واضح ہوگیا ہے کہ یہ حالات کو بہتر نہیں کرسکتے یا کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اس لیے جو کرنا ہے ہمیں کرنا ہے۔ جو دوسری قومیں کرسکتی ہیں ہم بھی کرسکتے ہیں۔ آئیے ابھی سے شروع کریں۔

تازہ ترین