• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کے شہر ’’ گوا ‘‘ میں شنگھائی تعاون تنظیم ( ایس سی او ) کے اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی شرکت پر تنقید کرنے والے یا تو بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات سے ناواقف ہیں یا وہ ان قوتوں کے نمائندہ ہیں، جو چاہتی ہیں کہ پاکستان ایس سی او جیسی موثر تنظیم سے الگ یا لاتعلق ہو جائے۔ ان لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ عالمی سیاست پرانے ضابطوں کوتَرک کر رہی ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا درست ہے کہ فورم جلد یا بدیر اس خطے کا ’’ پاور ہاوس ‘‘ ہو گا۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو بھارت کے دورے پر نہیں گئے تھے بلکہ بھارت میں ایس سی او کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں شرکت کیلئے گئے تھے ۔ ایس سی او کا اجلاس اس کے رکن ممالک میں کہیں بھی ہو سکتا ہے ۔ 2026ء میں ایس سی او کی چیئرمین شپ پاکستان کے پاس ہو گی ۔ پاکستان اگر اجلاس کی میزبانی کریگا تو اس میں بھارت کے وزیر خارجہ بھی شریک ہونگے ۔ اب پاکستان اور بھارت میں اس انتہا پسندانہ سوچ کا خاتمہ ہونا چاہئے کہ دونوں ملک ایسے دشمن ہیں کہ ان کے لیڈرز ایک دوسرے کے ملک جاکر کسی علاقائی یا عالمی تنظیم کے اجلاسوں میں بھی شرکت نہیں کر سکتے ۔ سیاست کے پرانے عالمی ضابطوں (ورلڈ آرڈرز ) کی اس سوچ کو اپنے اوپر مسلط رکھنا خود اپنے لئے نقصان دہ ہے۔

ایس سی او کی اہمیت کیا ہے ؟ اس پر بعد میں بات کرتا ہوں ۔ پہلے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے تدبر اور سفارت کاری کی تعریف کرنا ضروری ہے۔ ویسے تو بلاول بھٹو زرداری کے وزیر خارجہ بننے کے بعد پاکستان کا خارجی دنیا میں امیج پہلے سے بہتر ہوا ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں خارجہ امور کے ماہر تھے ۔ وہ خارجہ امور کو عالمی اور علاقائی سیاسی صورت حال اور تاریخی تناظر میں سمجھتے تھے ۔ اسلئے ان کا وژن بہت بڑا تھا ۔ وہ پاکستان کے خارجہ امور اور مفادات کو تنہائی ( Isolation) میں نہیں دیکھتے تھے ۔ بلاول بھٹو زرداری نے تھوڑے عرصے میں ثابت کیا کہ وہ بھی اسی میدان کے شہسوار ہیں ۔ ان کی بات کی گہرائی سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا ہر ایشو کے حوالے سے گہرا مطالعہ ہے ۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ دورہ بھارت کے دوران بلاول بھٹو کوئی بھی ایسی بات کر سکتے ہیں ، جسے بھارتی میڈیا بہت زیادہ اچھال کر پاکستان کے خلاف زہر افشانی کر سکتا ہے یا پاکستان میں ان کے مخالفین کو اپنے سیاسی وار کرنے کا موقع مل سکتا ہے ۔ لیکن انہوں نے گوا میں پریس کانفرنس کرکے بھارتی صحافیوں کے سوالوں کا خندہ پیشانی سے جواب دیا اور بھارت عوام کے ذہنوں میں پاکستان کے بارے میں غلط امیج کو کسی حد تک سوفٹ امیج میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ۔ امید ہے بھارت کے عوام نے پہلی مرتبہ پاکستان کے بارے میں کچھ مختلف سوچنا شروع کیا ہو گا ۔ پاکستان میں بھی ان کے مخالفین کو تنقید کے تیر کمان سے نکالنے کا موقع نہیں ملا۔

جہاں تک ایس سی او کی بات ہے ۔ 2001ء میں بننے والی اس تنظیم کا دائرہ اب بہت وسیع ہو چکا ہے ۔ 8 ممالک اسکے مستقل رکن ہیں ، جن میں چین ، بھارت ، پاکستان ، قازقستان ، کرغزستان ، روس ، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں ۔ چار ممالک آبزرور ہیں ۔ ان میں افغانستان ، بیلاروس ، منگولیا اور ایران شامل ہیں جبکہ ترکی اور سعودی عرب سمیت آٹھ ممالک اس کے ڈائیلاگ پارٹنرز ہیں ۔ یہ تنظیم یورپ اور ایشیا کے 60 فیصد رقبے اور دنیا کی 40 فیصد آبادی کا احاطہ کرتی ہے ۔ ایران اور سعودی عرب کو شاید جلد رکنیت مل جائیگی۔

اس تنظیم کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ علاقائی سیکورٹی معاملات پر اشتراک کیا جائے ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ملکر لڑا جائے اور علاقائی ترقی کیلئے وسائل کا بندوبست کیا جائے ۔ چین کے دارالحکومت میں بننے والی یہ تنظیم اب یورپ اور ایشیاء کی سیاسی، اقتصادی اور عالمی دفاعی آرگنائزیشن بن چکی ہے ۔ یہ نیٹو جیسی خالص دفاعی تنظیم نہیں ہے بلکہ اس کے مقاصد بہت وسیع ہیں ۔ یہ ترقی اور تعاون کی بنیاد پر مشرق کی مغرب پر بالادستی قائم کرنے کی وہ پرامن پیش رفت ہے ، جس کی پیش گوئی کوئی 30سال قبل امریکی دانشور پال کینیڈی نے اپنی کتاب ’’21 ویں صدی کے لئے تیاری ‘‘ میں کی تھی ۔ پال کنیڈی نے 21 ویں صدی کو مغرب کی کئی سو سالہ بالادستی کے خاتمے اور مشرق خاص طور پر چین کی صدی قرار دیا تھا ۔ مشرق کی طاقت کا مشرق سے ابھرتا ہوا سورج اب دنیا کو نظر آگیا ہے ۔ ہمارے عذاب یہ ہیں کہ ہم ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکے ۔ ہم امریکی کیمپ سے نکلنے کی کوشش کے باوجود نہیں نکل پا رہے ۔ ہم کھل کر چین اور مشرق کی ابھرتی قوتوں کے ساتھ کھڑے ہونے سے گھبرا رہے ہیں ۔ ہمیں آئی ایم ایف کی جکڑ بندیوں نے امریکی کیمپ کا جبری قیدی بنا رکھا ہے ۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور سیاست میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں ، جو نہیں چاہتے کہ پاکستان مشرق کے گروپس کا حصہ بنے۔

سی پیک کے منصوبوں کو روکنے اور سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے پیچھے یہی قوتیں کا م کر رہی ہیں ۔ وزیر مملکت حنا ربانی کھر کا لیک ہونے والا پیغام درست ہے کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ چین کو نظر انداز نہ کرے ۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئےاب غیر روایتی کوششیں کرے ۔ خاص طور پر پاکستان کے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی آئینی حقیقت پر بھی پیش رفت کرے ۔ یہ علاقے سی پیک کے ماخذ ہیں ۔ ان علاقوں کو پاکستان کی آئینی حدود میں شامل کرنے اور ان سمیت سابقہ پاٹا اور فاٹا کے علاقوں میں امن قائم ہونا چاہئے تاکہ یہ علاقے ماضی کی طرح عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ کیلئےبفرزون نہ رہیں ۔ یہ مشرق کی صدی ہے ۔ ہمیں چین کے ساتھ مل کر مشرق کی ترقی اور بالادستی کیلئے اپنا کردار کھل کر ادا کرنا ہو گا ۔ بلاول بھٹو کی گوا میں ایس سی او وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے بعد امکانات زیادہ واضح ہوئے ہیں ۔ ایس سی او کے پلیٹ فارم سے ہم غیر محسوس طریقے سے نہ صرف پرانی جکڑ بندیوں سے نکل سکتے ہیں بلکہ بھارت کے ساتھ تنازعات کو حل کرنے کیلئےبھی یہ پلیٹ فارم مددگار ہو سکتا ہے اورہم علاقائی ترقی سے مستفید بھی ہو سکتے ہیں ۔ ہم نے مغرب کی طرف بہت دیکھا ۔ اب مشرق کا عہد ہے ۔ دنیا میں سیاست کا نیا ضابطہ تحریر ہو رہا ہے۔

تازہ ترین