(گزشتہ سے پیوستہ)
موجودہ آب پاشی کا نہری نظام اپنی مرمت اور دیکھ بھال کے اخراجات کا صرف ایک چوتھائی اپنے بل بوتے پر پورا کرسکتا ہے ۔ 1970 ء کی دہائی میں آبیانیے سےوصول ہونے والی رقم کل اخراجات کے لئےکافی تھی۔ نہری پانی کے موجودہ فی ایکڑ اوسط نرخ اس سے ایک چوتھائی کم ہیں جو کسان ٹیوب ویل سے حاصل کردہ پانی کے لئے ادا کرتے ہیں ۔ اسلئے یہ ادائیگی کی تنگی کا مسئلہ نہیں ۔ استعمال کی بنیاد پر پانی کے بل کی بجائے یکساں نرخ آب پاشی کیلئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور پانی کی بچت کرنے کے راستے میں ایک رکاوٹ ہیں ۔ 2021ء تک پنجاب یکساں نرخوں کے تحت 135 روپے فی ایکڑ ( 80روپے خریف اور 50روپے ربیع کی فصل) وصول کرتا تھا، لیکن اس کے بعد سے یہ نرخ دوگنے کردیے گئے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں پانی کی دستیابی مزید غیر یقینی ہوسکتی ہے ۔ درجہ حرارت میں اضافہ ہمالیائی گلیشیرز کو تیزی سے پگھلا کر کم کررہا ہے (سندھ طاس میں پانی کا بڑی حد تک دارومدار گلیشیرز اور بارش پر ہے )اور بارشوں کا موسم بھی تغیر و تبدل کا شکار ہے ۔ اس انتہائی موسمی کیفیت سے پہلے سے ہی پسماندہ علاقے، جیسا کہ چولستان، تھرپارکر ، تھل، جنوبی خیبر پختونخوا، بلوچستان، سابق فاٹا کے اضلاع مزید متاثر ہوں گے۔ یہ علاقے پاکستان کے زیر کاشت رقبے کا 17 فیصد ہیں ۔ ان علاقوں میں کسانوں کی پیداوار میں اضافے کیلئے پانی کی فراہمی ضروری ہے۔
تحقیق اور ترقی
ماضی میں کی گئی تحقیقات کی بنیاد پر ایسی ٹیکنالوجی وجود میں آئی جس سے پیداوار میں اضافہ ہوسکے لیکن اس سے ترقی کی پیہم رفتار برقرار رکھنے، ان پٹ ، معیار، زمین کی صحت ، وسائل کے باکفایت استعمال اور بیرونی ان پٹ اور غذائیت کے حصول کے درمیان توازن قائم نہ کیا جاسکا۔ سرکاری تحقیق کے زیادہ تر اخراجات فصلوں پر ہوتے ہیں، لیکن پانی کے وسائل ،لائیو اسٹاک اور ماہی گیری پر بہت کم توجہ ہے۔ سماجی علوم پر تو سرے سے کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوتی ۔ ایسی ٹیکنالوجیز تیار کرنے کے لئے تحقیق اور ترقی کی ضرورت ہے جو سیلاب، خشک سالی، گرمی، سرد درجہ حرارت جیسے دباؤ کو برداشت کر سکیں اور کیڑوں اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت رکھتی ہوں۔ اور خاص طور پر چھوٹے کسانوں کو ان تک رسائی حاصل ہو۔سبز انقلاب میں سرمایہ کاری سے منافع کی داخلی شرح کا تخمینہ 57 سے 65 فیصد تک ہے۔ موجودہ سرکاری تحقیقاتی نظام میں تکنیکی صلاحیتوں، مالی وسائل کی دستیابی، نظم و نسق اور انتظامی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ اسکے کسان کے کھیتوں سے حاصل ہونے والے نتائج پر کوئی فرق پڑتا دکھائی نہیں دیتا۔ جی ڈی پی کا 0.1فیصد زرعی ترقیاتی مختص بجٹ تنخواہوں، الاؤنسز، عملے کی پنشن اور یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی پر صرف ہوجاتا ہے۔ تحقیقاتی سرگرمیوں پر آپریٹنگ اخراجات یا آلات کی فراہمی کے لئے رقم دستیاب نہیں ۔ سوائے یہ کہ مختصر مدت کے لئے غیر ملکی امدادی منصوبوں کے تحت کچھ وسائل میسر آجائیں۔ اس شعبے کے عملے میں پی ایچ ڈی ڈگری رکھنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترقی، معاوضہ، اور آگے بڑھنے کے مواقع کارکردگی سے منسلک نہیں ، بلکہ دیگر تمام سرکاری محکموں کی طرح سنیارٹی یعنی سروس کی طوالت پر مبنی ہیں۔نجی زرعی تحقیق میں سرمایہ کاری کافی عرصے سے دکھائی نہیں دیتی۔ ٹیکس کریڈٹ جیسی مراعات ان نجی فرموں کو دی جانی چاہئیں جو ترقی اور تحقیق کی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ نجی شعبے کی متعدد کمپنیوں نے حال ہی میں اس شعبے کی طرف قدم بڑھایا ہے لیکن انہیں فارم کی سطح پر اپنے کاموں کو بڑھانے کے لئے مستقل مدد کی ضرورت ہے ۔
زرعی فنانسنگ
رواں مالی سال کے آٹھ ماہ کے اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین تخمینے ظاہر کرتے ہیں کہ بنکوں نے 30لاکھ قرض لینے والوں کو ایک ٹریلین روپے سے زائد زرعی قرضے فراہم کئے ہیں۔ مالی سال 2023 کا ہدف 1.8ٹریلین روپے ہے جبکہ 1999-2000 ء میں یہ رقم صرف 33 بلین روپے تھی۔ پرائیویٹ کمرشل بینک، مائیکروفنانس بینک اور اسلامی بینک اب مرکزی قرض دہندہ ہیں جبکہ زرعی ترقیاتی بنک جو 2000سے پہلے کسانوں کو قرض فراہم کرنے والا سب سے بڑا ادارہ تھا، کے قرض کا حجم 72فیصد سے کم ہوکر4 فیصد رہ گیا ہے۔ یہ رقم بڑھ رہی ہے لیکن پھر بھی طلب سے کم ہے اور اس کی کوریج صرف ایک تہائی فارموں تک محدود ہے۔اسٹیٹ بنک کی طرف سے اٹھائے گئے دیگر اقدامات میں فصل اور لائیو سٹاک انشورنس اسکیم، چھوٹے اور پسماندہ فارموں کیلئے کریڈٹ گارنٹی اسکیم، وزیر اعظم کا 2022 کسان پیکج شامل ہیں۔ یہ اسکیمیں ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں ۔ضروری ہے کہ چھوٹے کاشتکار وں میں آگاہی مہم تیز کی جائے۔
چھوٹے کاشتکاروں کو شامل کرنے اور ان کے فارم اور مزدور کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کا ایک کامیاب طریقہ کنٹریکٹ فارمنگ ہے۔ گنا، مکئی، تمباکو،آلو کی فصلیں کنٹریکٹ فارمنگ کی کچھ روشن مثالیں ہیں جو چھوٹے پیمانے کے کسانوں کو منڈی سے جوڑنے والی ویلیو چین کا انتظام رکھتی ہے۔ یہ نظام کسانوں کیلئے مستحکم اور متوقع آمدنی کو یقینی بناتا ہے اور خریداروں کیلئے معیاری سپلائی اور مقدار کی ضمانت دیتا ہے۔ (جاری ہے)