آج مشینوں کے دور میں تعلیم و تدریس کا حلیہ بالکل بدل گیا ہے۔ استاد اور شاگرد کا تعلق بھی پیر و مرشد، رُوحانی والدین اور اولاد کا نہیں بلکہ خادم اور مخدوم، آجِراور اجیرکا بن گیا ہے۔ حصولِ تعلیم کے بَر خط (Online) ذرائع نے حصولِ علم کا پوراعمل پر تفریح اور آرام دِہ بنا دیا ہے۔سالانہ نظامِ امتحانات سے چہار ماہی نظام کی تبدیلی نے بھی تدریس کے عمل کو تیز اور بے رحم بنا دیا ہے، جہاں چلنے والے نکل گئے اور جو ذرا ٹھہرے، کچلے گئے۔ مزید برآں اس نئے نظام نے کئی نفسیاتی اُلجھنوں کو بھی جنم دیا ہے۔
اعلیٰ تعلیمی کمیشن (HEC) کے تمام معیار بھی اس نئے اندازِ تعلیم کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب کے تمام کالجوں میں چار سالہ، چہار ماہی نظامِ امتحانات کی حوصلہ افزائی، اساتذہ کی ترقی کے قواعد و ضوابط، طلبا کو دورانِ طالب ِعلمی پیشہ ورانہ اداروں سے مختصر وابستگی، یعنی انٹرن شپ کی ترغیب، جامعات میں مصنوعات کی تیاری اور ان کے منافع بخش کاروبار کی ترویج کے لیے محکموں کے قیام کا حکم، اِس نئے نظامِ تعلیم کے چیدہ چیدہ پہلو ہیں۔
نِیز تحقیقی مقالوں کی حِرص اور عالمی درجہ بندی کی دوڑ نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی توجہ کا رُخ مکمّل طور پر موڑ دیا ہے۔ آج ہمارے تعلیمی اداروں کا اوسط درجے کا طالبِ علم انٹر نیٹ اور درسی چربوں کے تھپیڑوں پر ہچکولے کھاتا نظر آتا ہے۔ اس کے پاس وہ وقت، فرصت اور ذہنی فراغت ہی موجود نہیں، جو اسے بلند خیالات اور اونچے مقاصد کی طرف اُڑا سکے۔معلومات کی ارزانی علم کی بے وقعتی کا سبب بن جاتی ہیں۔ کتب بینی ایک بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ علم کی خاطر مشقت اٹھانا مشکل لگتا ہے۔ طبعیت تفنّن اور تفریح کی تلاش میں رہتی ہے۔
گویا معلومات انٹرنیٹ کی صراحی سے قطرہ قطرہ ٹپکتی ہیں، جس سے روح سیراب نہیں ہو پاتی؛ ہاں وقتی پیاس ضرور بجھ جاتی ہے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان تعلق واجبی سا رہ گیا ہے۔ استاد مصروف ضرور ہے، مگر درس و تدریس میں نہیں، بلکہ انتظامی امور میں۔ سائنس کے میدان میں عملی تجربہ گاہیں قلتِ وقت اور سہل پسندی کی وجہ سے کالعدم ہوگئی ہیں۔ اِطلاقی شعبوں کی چکا چوند نے بنیادی نظری علوم (theoretical sciences) کو چندھیا دیا ہے۔ وہ سائنس جو کسی اَن دیکھے خیال کی تلاش میں رہتی ہو، اب غیر ضروری سمجھی جانے لگی ہے۔ تحقیق کا تعلق سرمائے سے جڑ گیا ہے۔ تحقیقات کی کام یابی کے تمام پیمانے کیفیت نہیں بلکہ کمیت سے منسلک ہوگئے ہیں۔ الغَرض علم، حکمت سے عاری ہوتا نظر آ رہا ہے۔
تعلیم اور درس و تدریس انسانی فطرت کا بہترین سودا ہیں۔ اگر اس عمل میں سے لطیف انسانی جذبات، ہم دردی اور غم خواری، مرتبوں میں پیچھے رہ جانے والے شاگردوں کے لیے خصوصی التفات، استاد کا ادب و احترام، بہترین اخلاق، امانت و دیانت، تحمل اور اختلافِ رائے کا احترام، الغرض ”احترامِ آدمیت“ نکال دیں، تو تعلیم کا مقصد بدل جاتا ہے۔
علم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو ہمارے معاشرے میں برابری اور اتحاد کی ضمانت دے سکتا ہے، ہماری مالی استعداد اور حسب نسب، ذات پات، مذہب اور فِرقے پر پردہ ڈال سکتا ہے۔استاد اور شاگرد کا تعلق عقلی تعاون سے عبارت ہے۔ بغیر علم الفاظ، نظریات، کلیات اور سائنسی پیش گوئیوں کی کوئی بلند و بالا عمارت کھڑی نہیں کی جا سکتی۔
سابق وائس چانسلر جامعہ پنجاب، پروفیسر حمید احمد خاں نے 20مارچ 1966ء کو گورنمنٹ کالج، جوہر آباد کے جلسہ عطائے اسناد و انعامات میں فرمایا تھا:
”اچھا اُستاد شاگرد کے ظاہر سے واقف ہونے پر اکتفا نہیں کرتا، وہ اس کے باطن کوسمجھتا ہے اور اس کی پوری شخصیت کا ا حاطہ کرتا ہے اور اس طرح خود اپنے نفس کو بھول کر ایک اور نفسِ انسانی کے فروغ کا باعث بنتاہے۔ خود فروشی اورخود فراموشی کے اس عمل میں استاد اپنے صحیح مقام و منصب کو پہنچتاہے“۔ (’تعلیم وتہذیب‘ پروفیسر حمیداحمد خاں، مجلسِ ترقی ادب، لاہور1975ء، ص 241)
تعلیم میں جو فی نفسہٖ خوبیاں ہونی چاہئیں، ہمیں انھیں بھی اہمیت دینا ہوگی۔ مثال کے طور پر نوجوانوں کی ذہنی اور فکری استعداد بڑھانے کے لیے سکون، تحمل، سرمائے سے بے نیازی، آسائش سے بے رغبتی، وقت کی فراوانی، حفظِ مرتب، آزادیِ رائے اور خاموش اضطراب درکار ہے۔
یہ وہ روشن ضمیری ہے، جسے روشن خیالی نے چھپا دیا ہے؛ جِس کے نتیجے میں یقین کی صاف روشنی کی نسبت، بے یقینی اور شک کی گنجلک بہتر سمجھی جانے لگی ہے۔شاگرد کے لیے تسلیم و رضا، ایک خوبی نہیں؛ نالائقی کی علامت بن گئی ہے۔ خود افروزی کی جگہ خود نمائی بہتر بن گئی ہے۔ والدین، طلبا اور اساتذہ کا حتمی مطمعِ نظر یہی ہے کہ وہ تعلیم کے ذریعے معاشرے میں اپنا معاشی رُتبہ اور سماجی رُعب قائم کر سکیں۔ حصولِ علم کے یہ سب مقاصد جائز ہوں گے، مگر ان کی حیثیت ثانوی ہے، مرکزی نہیں۔ تعلیم سوداگری نہیں، نہ ہی جماعت دُکان۔ استاد خلائی مخلُوق نہیں، نہ ہی شاگِرد روبوٹ۔ ذہن کمپیوٹر نہیں اور نہ ہی یونیورسٹی کارخانہ۔ تعلیم ایک انسانی وجود سے دوسرے تک عِلم و حِکمت کے بہاؤ کا نام ہے اور یہ بہاؤ دو طرفہ ہے۔
استاد شاگرد سے سیکھتا ہے اور شاگرد استاد سے۔ اس انسانی تعلق کو بحال کرنے کے لیے کمرائے جماعت کی اکائی کو آزاد کرنا ہوگا، تا کہ وہ سکون سے، عِزت سے روحِ انسانی صنعت گری کر سکے۔
تعلیم اور تربیت کا توازن قائم کرنا ہوگا۔ جست جو اور ان دیکھے رستوں کے تلاش ہی علم کا حسن ہے۔ نئے علوم اور نئے موضوعات کی تخلیق، ایک اچھی تعلیم کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا، کہ کیسا نظامِ تعلیم ہمیں ان مقاصِد کو حاصِل کرنے کے لیے تیار کرے گا۔
معزز قارئین ایک نظر ادھر بھی
پروفیسر اور طلبا کی پُر زور فرمائش پر اس ہفتے سے تعلیم کا صفحہ شروع کیا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ اُنہوں نے ہمیں تجاویز بھی ارسال کیں اور مضامین بھی۔ یہ صفحہ اُن سب کے لیے ہے جو پڑھنا چاہتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں بہتری کے خواہاں ہیں اور اپنے صفحے کے لیے لکھنا بھی چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنی رائے کے ساتھ تعلیمی حوالے سے مضامین بھی ارسال کریں۔ یہ صفحہ پندرہ روزہ ہے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی
Email: razia.fareed@janggroup.com.pk-musarrat.shahid@janggroup.com.pk