یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری آرہی ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا گزشتہ دنوں چین کا دورہ نہایت کامیاب رہا۔ اس دورے سے پاک چین تعلقات مزید مضبوط ہونگے۔ سی پیک کا منصوبہ تیزی کیساتھ آگےبڑھے گا۔ پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی اور آرمی چیف کے حالیہ دورے کے ثمرات ملنے شروع ہوگئے ہیں۔ گزشتہ روز پاکستان کی میزبانی میں پاکستان،چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات اسلام آباد میں ہوئے۔ افغانستان میں امن وامان، ترقی اور معاشی صورتحال کے بارے میں ہونیوالے اس اجلاس میں شرکت کیلئے چینی وزیر خارجہ چن گانگ اور افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیرخان متقی پہنچے تھے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے مذاکرات میں پاکستان کی نمائندگی کی۔مذاکرات میں افغانستان میں امن وامان اور معاشی صورتحال خصوصی طور پر زیر بحث رہی۔ افغانستان کے 9.5ڈالرز کے منجمد اکائونٹس اور اثاثوں کو فوری غیر منجمد کرنے پر زور دیا گیا تاکہ وہاں معاشی صورتحال میں بہتری آسکے۔ علاوہ ازیں افغانستان میں چین اور پاکستان کی طرف سے تعمیر نو کے مشترکہ منصوبے شروع کرنے پر بھی غور کیا گیا۔ مذاکرات میں پاکستان نے اپنے موقف کا اعادہ کیا جس کے مطابق افغانستان ایک خود مختار ریاست ہے۔پاکستان افغانستان کے ساتھ مضبوط دوستانہ تعلقات اور افغانستان میں امن وامان اور ترقی وخوشحالی کا خواہاں ہے۔ اور ان مقاصد کے حصول کیلئے پاکستان ہر ممکن مدد اور تعاون کیلئے تیار ہے۔کوئی شک نہیں کہ اس کامیاب اور خوشگوار ماحول میں ہونیوالے مذاکرات کے مثبت نتائج جلد سامنے آجائینگے۔ افغانستان کی معاشی ترقی اور وہاں کے عوام کی خوشحالی کیلئے یہ مذاکرات سنگ میل ثابت ہونگے۔ اس کے علاوہ سی پیک میں افغانستان کی شمولیت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ افغانستان میں امن کا قیام نہ صرف افغان عوام بلکہ پاکستان کیلئے بھی بہت ضروری ہے۔ افغان حکومت کواس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دہشت گرد گروپوںکی افغان سرزمین پر موجودگی اسلئے باعث تشویش ہے کہ اس سے نہ صرف افغانستان میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں بلکہ افغان سرزمین کو استعمال کرکے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاںہوتے ہیں اور ان دہشت گردوں میں سے جو بھی پاک فوج کی طرف سے دندان شکن جوابی کارروائی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ بھاگ کرپھر افغانستان میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ایسے دہشت گرد گروپوں نے افغانستان میں مستقل ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔ جن کا خاتمہ دونوں ممالک کے اندر امن وامان کے قیام کیلئے بنیادی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ان دہشت گردوں کو بھارت کی حمایت اور معاونت حاصل ہے۔ ان دہشت گردوں کی موجودگی ہی افغانستان میں قائم امن کے ساتھ ساتھ وہاں کی معاشی خوشحالی میں اہم ترین رکاوٹ ہے۔ اسلئے افغان حکومت کو چاہئے کہ وہاں موجود دہشت گردوں سے افغان سرزمین کوپاک کرے۔ اور پاکستان وچین کے ساتھ مل کر وہاں ترقی اور خوشحالی کیلئے راہیں ہموار کرے۔دفتر خارجہ میں پاکستان اور چین کے وزرا ئے خارجہ کے درمیان ہونیوالی ملاقات میں اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں چینی وزیر خارجہ نے یہ خوشخبری سنائی کہ پاکستان کودرپیش اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے چین پاکستان کی ہرممکن مددو تعاون کریگا ۔ یادرہے کہ چین نے پہلے ہی پاکستان کو کروڑوں ڈالر فراہم کرنے کے علاوہ ریلوے منصوبےمیں تعاون کابھی عندیہ دیا ہے۔ پاکستان اور چین کی72سالہ دوستی وقت کیساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔ چین نے ہمیشہ ہرمشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ چین نے مسئلہ کشمیر پر متعدد بار پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے۔ سی پیک منصوبہ پاکستان کی ترقی کیلئے نہایت اہم ہے۔ پاکستان اور چین کی پختہ دوستی سے بھارت کوبہت زیادہ تکلیف ہے۔ اسلئے وہ کوشش کرتا ہے کہ سی پیک کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جائیں۔ پاکستان میں جہاں بھی چین کے تعاون سے کسی منصوبے پر کام ہورہا ہو بھارت وہاں دہشت گرد کارروائیاں کراکر اس منصوبے میں روڑے اٹکانے کی مذموم کوششیں کرتا ہے۔ جن میں ابھی تک بھارت کواس کے مقاصد حاصل نہیں ہوسکےہیں اور نہ آئندہ حاصل ہوسکیں گے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے بھارت کا کامیاب دورہ کیا۔ وہاں کھڑے ہوکر کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کا نہ صرف اعادہ کیا بلکہ کشمیریوں کی بھرپور ترجمانی کی۔ وزیر خارجہ کے بھارت کے دورے اور وہاں پاکستان کے موقف کا کھل کر اعادہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت اور انکے بنیادی انسانی حقوق کے حصول تک ان کی سفارتی ، سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔ پاکستان میں بعض لوگ ذاتی اور سیاسی مفادات میں اندھے ہوگئے ہیں۔ وہ وزیر خارجہ کے دورے کے بارے میں وہی بیانات دےرہے ہیں جو بھارت دیتا ہے۔ ایسے لوگ وزیرخارجہ کے دورے کو ناکام دورہ بتاکر قوم کو گمراہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ ایسے لوگ کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو بھی نقصان پہنچارہے ہیں۔ سیاسی مفادات اپنی جگہ لیکن ریاست کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔ اسکے نتائج انکے حق میں بھی بہتر نہیں نکلیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)