• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

لاہور میں انگریزوں کے قائم کردہ کئی تاریخی اور نامور اسکول غا ئب ہو چکے ہیں یاغائب کر دیئے گئے۔ہم نے کئی مرتبہ اس سلسلے میں محکمہ تعلیم سے رابطہ کیا مگر انہیں بھی علم نہیں کہ وہ کہاں گئے ۔لاہور کا انتہائی اہم تاریخی اور قدیم ترین اسکول گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول کو حکومت دانش اتھارٹی کے سپرد کرکے اس کا تاریخی تشخص اور نام ختم کر رہی ہے جو کہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ اس اسکول کے اولڈ اسٹوڈنٹس اور پرانے لاہوریوں کو پتہ ہو گا کہ اس اسکول کا ایک جونیئر سیکشن بھی کبھی ہوتا تھا جس کو جونیئر ماڈل اسکول کہا جاتا ہے ۔جس میں پہلی سے پانچویں جماعت تک لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے پڑھتے تھے۔ ہماری کلاس فیلوز میں ایک سابق مرکزی وزیر کی بیٹی اور پنجاب کے ایک سابق چیف سیکرٹری کی اہلیہ بھی رہی ہیں۔کیا اسکول تھا پہلی اورششم میں داخلہ ہوتا تھا جونیئر سیکشن کو چھوٹا اسکول اور کلاس ششم سے اسکول کو بڑا اسکول کہا جاتا تھا ۔اس تاریخی اسکول نےپاکستان میں بیورو کریسی، فوج، شعبہ طب، انجینئرنگ اور کئی دیگر شعبوں میں 70سے 80فیصد لوگ مہیا کئے تھے ۔

قارئین آپ کے لئے یہ بات بڑی حیرت اور دلچسپی کا باعث ہو گی کہ گورنمنٹ کالج لاہور کا آغاز جس حویلی سے ہوا تھا جس کو کچھ لوگ دربار دھیان سنگھ کہتے ہیں۔وہاںڈسٹرکٹ اسکول لاہور 15اپریل 1860ء کو قائم ہوا تھا اس ڈسٹرکٹ اسکول میں جو بچے تعلیمی لحاظ سے کمزور تھے ان کو سینٹرل ماڈل اسکول بھیج دیا جاتا تھا ۔آپ سوچیں کہ اس زمانے میں گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول کا تعلیمی معیار کس قدر بلند اور بہتر تھا ۔یہ لاہور کا واحد اسکول رہا ہے جس نے اپنے قیام سے 1980ء تک بہت ترقی کی۔اس اسکول میں داخلہ ملنا انتہائی مشکل تھا سفارش تو بالکل نہیں چلتی تھی اس اسکول کے کئی اساتذہ نے اسے بہترین اسکول بنانے میں نمایاں حصہ لیا۔یہ بات بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سینٹرل ماڈل اسکول کو ایک معیاری اسکول بنانے میں سینٹرل ٹریننگ کالج کا بھی بڑا کردار ہے ۔ گوروں نے لاہور میں سینٹرل ٹریننگ کالج کا آغاز شاہی مسجد کے بالکل سامنے واقع حضوری باغ میں دسمبر 1880ء میں کیا آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سینٹرل ماڈل اسکول اور سینٹرل ٹریننگ کالج کا آخرآپس میں کیا تعلق ہے؟تو لاہوریوں بات یہ ہے کہ یہ اسکول،سینٹرل ٹریننگ کالج کی لیبارٹری اسکول کے طور پر کئی برس کام کرتا رہا ۔اس زمانے میں کئی لاہوریوں نے یہ اعتراض کیا کہ اس اسکول میں زیر تربیت اساتذہ پڑھائیں گے تو اسکول کا معیار گر جائے گا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس اسکول کے نتائج لاہور کے تمام اسکولوں سے اچھے اور بہترآنے لگے۔دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ سینٹرل ٹریننگ کالج (جو کہ اب یونیورسٹی آف ایجوکیشن کا سب کیمپس ہے،اس کاقدیم نام سینٹرل ٹریننگ کالج بھی ختم کر دیا گیا ہے) اسکول کی زمین پر تعمیر کیا گیا اور2011ءتک یہ کالج اور اسکول ایک ہی کیمپس میں تھے بلکہ اس اسکول کا تیراکی کا تالاب دونوں اداروں کے اسٹوڈنٹس اور اساتذہ استعمال کرتے تھے ۔پھر کسی بہت ہی عقل مند پرنسپل /ہیڈماسٹر نے اس اسکول کا سوئمنگ پول ختم کردیا ۔اس کالج کا بہت خوبصورت تاریخی اولڈ بوائز ہوسٹل بھی گرا دیا ہمیں اس کے گرے سیمنٹ کے چمکدار فرش آج بھی یاد ہیں ۔اس ہوسٹل کے اوپر ہوسٹل وارڈن پروفیسر شمشاد لودھی رہا کرتے تھے (والد معروف آئی سرجن کیپٹن ڈاکٹر قمرالاسلام لودھی) کیا گرج دار آواز میں بولا کرتے تھے پورے ہوسٹل میں ان کی آواز گونجا کرتی تھی ۔ہماری طرح کے عمر رسیدہ لاہوریوں کو یاد ہوگا کہ سینٹرل ماڈل اسکول کے ساتھ کربلا گامے شاہ کی دیوار کے ساتھ لاہور کے ایک بہت بڑے رئیس رائے صاحب میلہ رام کی میلہ رام کاٹن ملز ہوا کرتی تھی۔ اس مل کی دھواں والی چمنی اور بڑی بڑی لوہے کی جالی والی کھڑکیاں ہم نے دیکھی ہیں ۔ملز کے ساتھ ہی میلہ رام کی بہت وسیع کوٹھی جو آج کل ایک مذہبی جماعت کے پاس ہے ہم اس کوٹھی میں کئی مرتبہ گئے اورعلامہ محمود احمد رضوی مرحوم سے ملاقات بھی کیا کرتے تھے ۔ان کو سانس کی بیماری تھی ہمارے کئی جنگ فورم اور سیمیناروں میں آتے رہے ہیں یہ وہی میلہ رام ہیں جنہوں نے حضرت علی ہجویریؒکے مزار مبارک پر بجلی لگوا کر دی تھی ۔حضرت علی ہجویری ؒ کی دعا سے ان کے تینوں بچوں کو صحت ملی تھی یہ واقعہ لاہور کی کئی کتابوں میں درج ہے۔میلہ رام کاٹن ملز کے دفاتر موجودہ واپڈا ہائوس والی جگہ پر تھے بڑے وسیع دفاتر تھے اس ملز کے سائرن کی آواز بھی کئی لاہوریوں نے سنی ہے۔ پھر مل ختم ہو گئی، کبھی یہاں مولانا کوثر نیازی کے ہفتہ وار شہاب کا دفتر، حنیف رامے کے رسالہ ہفتہ وار نصرت اور روزنامہ مسادات کے دفاتر مختلف عمارات میں تھے یہیں قریب معروف شاعر ساغر صدیقی سڑک کنارے فٹ پاتھ پرہوتے تھے اور لاہور کے کئی نام نہاد شاعر ایک سگریٹ پر ساغر سے خوبصورت اشعار لکھوا کر اپنے نام کر لیا کرتے تھے سچ یہ ہے ہم نے ساغر کو کئی مرتبہ یہاں دیکھا مگر اس وقت بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ بہت بڑا شاعر ہے۔

اس زمانے میں رائے میلہ رام نے اپنے چھوٹے بیٹے کو سینٹرل ماڈل اسکول میں داخل کرا دیا۔ ناصرف اسکول میں داخل کرایا بلکہ اسکول کے ذہین ترین طالب علم کے لئے تیس روپے (اس زمانے میں ) وظیفہ بھی دینے کا اعلان کیااور سینٹرل ٹریننگ کالج کی عمارت کی توسیع کے لئے چالیس ہزار روپے کی رقم اس زمانے میں دی۔1887ء میں اس کالج کی نئی عمارت تعمیر ہو گئی ۔(جاری ہے )

تازہ ترین