• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مغربی ممالک میں حالیہ پیش رفت نے صنعتی پالیسی کی ضرورت پربحث شروع کردی ہے۔ پاکستان جو گزشتہ چند عشروں سے صنعت کاری کے خاتمے کے دور سے گزرہا ہے اسے بغور جائزہ لینا ہو گا کہ آیا اسے ماضی کی پالیسی سے مختلف قسم کی صنعتی پالیسی تیار کرنے سے فائدہ ہو سکتا ہے جسے ہم صنعتی پالیسی 1.0 کا عنوان دیں گے ۔ اس مقصدکیلئے بحث کو تاریخی تناظر میں ہونا چاہئے۔آزادی کے وقت پاکستان میں سیمنٹ، چند ایک چینی اور چائے پراسسنگ کے کارخانے، دوسے تین کپڑے کی ملیں، اور ریلوے ورکشاپ کے علاوہ کوئی بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ یونٹ نہیں تھے۔ پاکستان بنیادی طور پر بھارت کی تیار کردہ اشیا درآمد کرتا تھا ۔ پاکستان میں مینوفیکچرنگ کا جی ڈی پی میں حصہ1.4فیصد تھا جبکہ بھارت میں یہ تناسب 6 فیصد تھا۔عالمی سطح پر صنعتی پالیسی کے آغاز کو دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپی معیشت کی تعمیر نو اور بحالی کی کاوشوں میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ پالیسی سازی، عوامی سرمایہ کاری اور مالی امداد فراہم کرنے کیلئے نئی بین الاقوامی مالیاتی تنظیموں کی تشکیل ہوئی۔ امریکہ کے 13.3بلین ڈالر کے امدادی پیکیج کے ذریعے عملی طور پر وجود میں آنے والا مارشل پلان اس پالیسی کا کامیاب مظہر تھا ۔ اس نے صنعت کاری اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی اور یورپی معیشتوں کی بحالی میں تعاون کیا۔ اسی طرح جاپان قابض فورسز کے سربراہ ڈگلس میک آرتھر کی قیادت میں اصلاحات کے عمل سے گزرا ۔ ان کے نتیجے میں 1945سے 1991 تک تیز رفتار اور پائیدار اقتصادی ترقی ہوئی۔ صنعتی پیداوار کی بے مثال توسیع، مقامی مارکیٹ کی ترقی اور جارحانہ برآمدی پالیسی جاپانی کامیابی کے ستون تھے۔

جیسے جیسے نوآبادیاتی نظام تحلیل ہونا شروع ہوا ، ایشیا اور افریقہ میں نئی آزاد قومیں ابھرنے لگیں ۔ یہ اقوام غریب اور پسماندہ تھیں۔ ان کیلئے ایسی حکمت عملی درکار تھی جو ان کی معیشتوں کا رخ بہتری کی طرف موڑ سکے۔ مارشل پلان اورجاپانی بحالی کے تجربے کی روشنی میں ماہرین اقتصادیات نے دلیل دی کہ ترقی صرف صنعت کاری کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ترقی حاصل کرنے کےلئے جی ڈی پی اور روزگار میں زراعت کا حصہ کم جب کہ صنعتی پیداوار کا بڑھتا ہوا حصہ درکار تھا۔ صنعت زراعت سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرتی ہے کیونکہ صنعت کاری معیشت، سرمائے کے ارتکاز، تیار شدہ اشیا اورآگے اور پیچھے ، دونوں طرف روابط رکھتی ہے، جب کہ زراعت میں یہ چیزیں نہیں پائی جاتیں ۔ صنعت کو اعلیٰ پیداواری صلاحیت حاصل ہے جو ترقی اور معاشی نمو کیلئے اہم ہے۔ نئے آزاد ہونے والے ترقی پذیر ممالک نے تیز رفتار نمو کیلئے صنعت کاری کو اپنی ترقیاتی پالیسی کے سنگ بنیاد کے طور پر اپنایا۔ انھیں سرکردہ ترقیاتی ماہرین اقتصادیات کی فکری حمایت حاصل تھی ۔ ان ماہرین کا استدلال تھا کہ سرمایہ کی فراہمی، زرمبادلہ کی کم نرخوں پر دستیابی، درآمدات پر محصول، خام مال، درآمدی مال اور غیر ملکی اشیا پر انتظامی اور مرکزی کنٹرول کے ذریعے مقامی صنعتوں کو بین الاقوامی مقابلے سے بچانا ضروری ہے۔ یہ اقدامات صنعت کاری کی مہم کو آگے بڑھاتے ہوئے ترقی کی شرح تیز کر سکتے ہیں۔ یہ امپورٹ سبسٹی ٹیوشن انڈسٹریلائزیشن (آئی ایس آئی) کی حکمت عملی کے دور کا آغاز تھا۔ پاکستان بھی اس صف میں شامل ہوگیا اور پالیسی اقدامات کے ذریعے ان تصورات کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا۔

دوسرے مرحلے کی درآمدی متبادل حکمت عملی کا مقصد روز مرہ استعمال کی درآمد شدہ مصنوعات کو مقامی مصنوعات سے بدلنا ہے۔ اس منتقلی کو آسان بنانے کیلئے حکومت نے پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) قائم کی جس کا مقصد صنعت کے بہت سے نئے شعبوں میں اہم منصوبے شروع، اور ایسے نجی اداروں کی تکمیل کرنا تھا جہاں پرائیویٹ یونٹس کی موجودہ تعداد مانگ کے لحاظ سے کافی نہیں تھی۔ جن اہم شعبوں میں پی آئی ڈی سی کو مداخلت کرنا تھی وہ ہیوی انجینئرنگ (بشمول آئرن اورا سٹیل)، جہاز سازی اور پٹ سن کی مصنوعات تھیں۔ یونٹس کو مکمل ہونے کے بعد نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا۔اس طرح 1950 اور 1960 کی دہائیوں کے دوران پاکستان میں صنعتی پالیسی کی قیادت پی آئی ڈی سی نے کی۔ اس نے وہ ابتدائی سرمایہ کاری فراہم کی جسے نجی شعبہ اپنے طور پر شروع نہیں کر سکتا تھا۔ یہ طویل المدتی منصوبے تھے اور نجی کاروباری افراد کو اس طرح کے منصوبے شروع کرنے، ہنر مند افرادی قوت تیار کرنے اور منافع حاصل کرنے سے پہلے کئی سال انتظارکرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ صنعتی پالیسی کے نتائج شاندار تھے اور انہوں نے بگ پش اور آئی ایس آئی کی حکمت عملی کے حامیوں کے خیالات کی تصدیق کی۔ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں 1950 اور 1960 ءکی دہائیوں میں سالانہ 9 فیصد سے زیادہ کی غیر معمولی شرح نمو تھی۔ محنت کی پیداواری صلاحیت میں نمایاں بہتری آئی کیونکہ اس شعبے نے تکنیکی موافقت اور اختراع کیلئے اعلیٰ صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ 1969ء تک عالمی بینک کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ پاکستان کی تیار کردہ برآمدات ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور فلپائن سے زیادہ تھیں۔ ایکسپورٹ سیکٹر نے ایکسپورٹ بونس اسکیم متعارف کرانے پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا جس سے ایکسپورٹر کو ایکسچینج ریٹ کی تبدیلی پر پریمیم، کریڈٹ تک ترجیحی رسائی اور مالی مراعات ملیں ۔ جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کا حصہ 1949-50ء میں 7.8فیصد سے بڑھ کر1969-70 ءمیں 26فیصد ہو گیا ۔ اسی عرصے میں بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کا حصہ 2.2سے 12.5 فیصد تک ، یعنی چھ گنا بڑھ گیا ۔(جاری ہے)

تازہ ترین