• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستانیوں کو خراب معاشی صورتحال کے باعث مشکلات کا سامنا ہے، ہر طرف بے یقینی ہے، مزدوروں کی زندگی تو تباہ حال ہے کوئی پرسان حال نہیں،ملک کی اشرافیہ جن غلطیوں کی عادی ہے، ان کے نتائج مستقبل کا راستہ اور بھی مشکل بنا دیں گے۔ ہم طویل عرصے سے جس گہری نیند میں ہیں اس سےجب بیدار ہونگےاس وقت حالات ہمارے کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔ ہمارے حکمراں اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ دیگر فیصلہ سازوں کی جانب سے کھلی غفلت اور دور اندیشی کی کمی اتنی واضح ہے کہ اس کے بارے میں مزید بات نہیں کی جا سکتی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ پورے ملک میں چند گھرانوں کی حکمرانی ہے جو ہر 5 سال بعد کسی دوسری جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں جنہیں صرف اپنوں کا خیال رہتا ہے ،عام آدمی ان کا مسئلہ نہیں۔آئیے ہم انسان کے سب سے بنیادی حق سے شروع کرتے ہیں: کھانا اور پانی۔ پاکستان، اپنی پانی کی ضروریات پر غور کرنے، حساب لگانے اور اس کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے، تیزی سے پانی کی کمی والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے جہاں زیر زمین پانی بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ بارش کاپانی ذخیرہ کرنے کے لئےڈیم نہ ہونے کی وجہ سے، ملک سال کے نصف حصے میں تباہ کن سیلاب سے دوچار رہتا ہے، جبکہ خشک سالی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ سندھ کے علاوہ کسی صوبے نے پانی ذخیرہ کرنے کےلئے کوئی ڈیم نہیں بنائے ۔

پورے ملک کا پانی جب دریائے سندھ میں گرتا ہے تو ڈیم بنانے کے باوجود سندھ کو تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سیلابی پانی دریا کی ریت جگہ جگہ چھوڑ جاتا ہے جس سے زمین قابل کاشت نہیں رہتی۔اس سے غذائی قلت پیدا ہوتی ہے ۔ اس سال کپاس کی گزشتہ چار دہائیوں میں سب سے کم پیداوار ہوئی ہے۔ غذائی قلت کی وجہ سے لوگ اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے چکر میں اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتے جس سے بچوں کا مستقبل تاریک ہونےکاخطرہ ہے، کیوں کہ لوگوں کے پاس اب دو ہی آپشن ہیں یا تو اپنی غذائی ضروریات پوری کریں یا پھر بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔دونوں کام ایک ساتھ نہیں ہو سکتے ۔ پاکستان میں لاکھوں بچے اسکول نہیں جاتے یہ بچے تعلیم کے ساتھ ساتھ روٹی سے بھی محروم ہیں۔جو خوش قسمت لوگ تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہیں انہیں فرسودہ تعلیمی نظام کا سامنا کرنا پڑتاہے جو صرف اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہمارے بچوں کے پاس ڈگری کا ٹکڑا آجائے، یہ تعلیمی نظام اتنا فرسودہ ہے کہ اس سے ڈگری حاصل کرنے والے کسی عالمی ادارے میں جگہ ہی نہیں بنا پاتے۔ دوسری طرف انڈیا کا نظام تعلیم ہے جہاں بچے پڑھ کر گوگل، ٹویٹر، فیس بک، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کا حصہ بن رہے ہیں۔ تعلیم کا کم معیار اور آبادی کی بلند شرح آنے والی تباہی کا واضح اشارہ ہے۔ہمارے ملک میںقومی بیانیے کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں رکاوٹیں حائل ہیں۔اس لئے ہمارامستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔

جس ملک میںافراد مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، ایسے ملک میں جاری سیاسی انتشار اور لاقانونیت کی وجہ سے ریاستی ادارے اپنے فرائض پر توجہ دینے کے بجائے اپنے اختیارات کو وسعت دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، کیا ہمیں کسی بھی سرمایہ کار سے موجودہ مارکیٹ سے وابستہ رہنےکی توقع کرنی چاہئے؟ اپنے آپ کو ایک سرمایہ کار تصور کریں اور آپ جواب دیں کہ کیا آپ کسی ایسےملک میں سرمایہ کاری کریں گے جہاں رشوت کے بغیر کوئی کام ہی نہ ہوتا ہو جس ملک سے ہر روز ہزاروںہنر مند افراد باہر منتقل ہورہے ہیں کیوں کہ انھیں ملک میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا، جب ملک کے انسانی وسائل ملک سے باہر جانے کے لئے تیار ہیں تو یہ توقع کرنا بالکل غیر منطقی ہے کہ لوگ بیرون ملک سے اپنے مالی وسائل لا کر آج کے پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔

ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ بھارت 2001تک ہم سے معاشی لحاظ سے پیچھے نہیں تھا تو آگے بھی نہیں تھا ؟ کیا وجہ ہےکہ آج وہ عالمی معیشتوں میں پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے باوجود اس کے کہ وہاں درجنوں علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں، باوجود اس کے کہ وہاں ہندو ہٹ دھرمی کی وجہ سے اقلیتیں غیر محفوظ ہیں، لیکن وہ ہم سے آگے نکل گیا کیوں کہ انھوں نے اپنے وطن میں مسائل کا حل ڈھونڈا اور نظام تعلیم بہتر کیا، اور ساتھ ساتھ کرپشن کا خاتمہ کیا، اس لئے دنیا کی بڑی کمپنیاں وہاں کام کرنےمیں دلچسپی کامظاہرہ کر رہی ہیں۔

تازہ ترین