اسلام آباد (فاروق اقدس/ تجزیاتی رپورٹ) حکومتی شخصیات جن میں مولانا فضل الرحمان بھی سرفہرست ہیں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور بعض جج صاحبان سمیت موجودہ چیف جسٹس کے بارے میں اعلانیہ اس موقف کا اظہار اور دعوے کے ثبوت میں شواہد پیش کرتے ہیں کہ ہمارے عدالتی نظام میں عمران خان کی حمایت موجود ہے جب وہ وزیراعظم کے عہدے پر تھے اس وقت بھی اور اب جب وہ تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے بدعنوانیوں اور اپنے سابقہ منصب کے اختیارات سے ناجائز فوائد حاصل کرنے اور اپنے قریبی لوگوں کو نوازنے کے الزامات کے حوالے سے عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو اب بھی۔ گوکہ ان الزامات اور دعووؤں کی تصدیق ’’آڈیو ریکارڈنگز‘ ‘ کےمنظر عام پر آنے کے بعد ہوچکی ہے لیکن اس کی ایک اور عملی تصدیق ملک کی معروف فیشن ڈیزائنرخدیجہ شاہ کی گرفتاری کے بعد سامنے آتی ہے ۔کہ ماضی میں اور شاید اب بھیاثرونفوذ رکھنے والے عہدوں پر کام کرنے والے اپنے اختیارات کی طاقت کے حوالے سے اور ان کے خاندان کے افراد اس طاقت کے زعم میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ دہشت گردی اور ملک دشمنی کے واقعات کا بھی کردار بن جاتے ہیں اگر ایسے کرداروں کو گرفت میں لانے، کیفرکردار تک پہنچانے کا کام نگران حکومت میں ہی شروع ہوا ہے تو پھر بیشک الیکشن میں تاخیر ہوتی رہے، یہ عمل جاری رہنا چاہئے۔گوکہ ہمارے ہاں ایسے شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کا شمار طبقہ اشرافیہ میں کیا جاتا ہے لیکن خدیجہ شاہ سابق وفاقی وزیر سلمان شاہ کی صاحبزادی اور سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کی نواسی ہیں۔ پھر خدیجہ شاہ کی بعض دوستوں کے بارے میں بھی یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ان کی بعض دوستوں کا تعلق عدلیہ کی شخصیات سے ہے۔
یاد رہے کہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر سلمان شاہ کو عثمان بزدار کا مشیر برائے اکنامک افیئرز بنایا گیا تھا۔
یہ حقائق اپنی جگہ اور ان کے اثرونفوذ شاید بعد میں سامنے آجائیں لیکن یہ صورتحال بھی قابل ذکر ہے کہ خدیجہ شاہ جو سانحہ 9 مئی کے حوالے سے لاہور کے جناح ہاؤس میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کیس میں پولیس کو مرکزی ملزم کی حیثیت سے مطلوب تھیں اور پولیس کو گرفتاری دینے کی یقین دہانی کرانے کے باوجود گھر سے فرار ہوگئیں تھیں پولیس نے انہیں گرفتار کرکے دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جہاں سے خدیجہ شاہ کو شناخت پریڈ کیلئے جیل میں بھیج دیا گیا۔