• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگریزوں کی مسلم دشمن پالیسیوں اور اِنتہاپسند ہندو تنظیموں کی چیرہ دَستیوں نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات میں غیرمعمولی اِشتعال پیدا کر دیا تھا اور علما کا سیاست میں حصّہ لینا وقت کی ایک فطری ضرورت بن گیا تھا۔ دراصل اٹھارہویں اور اُنیسویں صدی میں بڑی بڑی دینی تحریکیں اٹھتی اور مسلمانوں میں زبردست فکری اور سیاسی بیداری پیدا کرتی رہی تھیں۔ اُن میں فرائضی تحریک، ریشمی رومال کی تحریک اور تحریکِ مجاہدین قابلِ ذکر ہیں۔ اُنہوں نے ایک طرف بنگال میں بےرحم ہندو ساہوکاروں کی طاقت پر کاری ضرب لگائی اور دُوسری طرف پنجاب اور صوبہ سرحد میں سکھوں کی سفاکیت کی روک تھام کےلئے پورے شمال مغربی ہندوستان میں بڑے پیمانے پر مجاہدین منظم کئے۔ ہندوؤں، سکھوں اور مرہٹوں کی اِن وحشی طاقتوں کو درپردہ اَنگریزوں کی پشت پناہی حاصل تھی، اِس لئےیہ تحریکیں مزاحمت کرتے کرتے دم توڑتی رہیں، مگر معاشرے پر اُن کے گہرے اثرات دیر تک قائم رہے۔

فرائضی تحریک حاجی شریعت اللہ کی زیرِقیادت بنگال میں شروع ہوئی۔ وہ 1747ء میں فریدپور کے مقام پر پیدا ہوئے اور جوانی ہی میں سعودی عرب چلے گئے جہاں محمد بن عبدالوہاب ؒ کی تحریک عروج پر تھی۔ وہ اُن سے متاثر ہو کر اَپنے وطن بنگال واپس آئے، تو یہاں کے سفید و سیاہ کا مالک انگریز بن چکا تھا اور بندوبست دوامی کے تحت وہاں مسلمانوں کی زیادہ تر زمینیں ہندوؤں کی ملکیت میں چلی گئی تھیں۔ حاجی شریعت اللہ نے اصلاحِ احوال کا آغاز مسلمانوں میں مذہبی فرائض کی ادائیگی اور کبیرہ گناہوں سے اجتناب کی تلقین سے کیا۔ ساتھ ہی الارض للّٰہ کا نعرہ بلند کیا جس میں زمین کی شخصی ملکیت کی گنجائش نہیں تھی۔ یہ ایک انقلابی تصوّر تھا جو اِس تحریک نے عوام الناس کی فلاح اور دَادرسی کے لئے استعمال کیا۔ مزید براں اُنہوں نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دِیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں پر نمازِ جمعہ ساقط ہو گئی تھی۔

فرائضی تحریک کے زیادہ تر پیروکار مزارعین تھے جو دَادرسی کے لئے حاجی شریعت اللّٰہ کے پاس آتے رہتے تھے۔ یوں اُن کی خاطر اُنہیں انگریزوں کے خلاف میدانِ عمل میں اترنا پڑا۔ 1830ء تک وہ مجاہدین کی قیادت کرتے رہے۔ اُن کے انتقال کے بعد اُن کے بیٹے محسن عرف دادو میاں نے جہاد جاری رکھا اور سرکش ہندو زمینداروں کو حدود میں رکھا۔ اِس بنیاد پر انگریز فوجوں سے معرکے ہوتے رہے۔ آخرکار دَادو میاں گرفتار کرلئے گئے، اُن کے ساتھی بغاوت کے مقدمات میں دھر لئے گئے اور اُنہیں کڑی سزائیں دی گئیں۔ سب سے بڑا قدم یہ اٹھایا گیاکہ حکومت نے اُن عمائدین کے خلاف مولوی کرامت علی جونپوری کو کھڑا کر دیا جن کی ٘مذہبی مخالفت اور مناظرہ بازی نے تحریکِ فرائضی کو انگریزوں سے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا جو 1860ء میں سخت مزاحمتوں کے بعد دم توڑ گئی۔

اِسی دوران تحریکِ مجاہدین 1826ء اور 1835ء کے درمیان پورے مشرقی اور شمالی ہندوستان میں بہت بڑی طاقت بن چکی تھی۔ دراصل 1803ء میں انگریزوں نے مغلوں کا دارالسلطنت فتح کر لیا تھا اور مغل بادشاہ کمپنی کا وظیفہ خوار بن گیا تھا۔ اب سرکاری اعلان اِن الفاظ میں کیا جاتا کہ ’’ملک بادشاہ سلامت کا اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘۔ انگریزوں کے اِن جارحانہ اقدامات کے خلاف اُس وقت کے سب سے بڑے مجدد حضرت شاہ وَلی اللّٰہؒ کے فرزند شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے حاجی شریعت اللّٰہ کے بعد ہندوستان کو دارالحرب قرار دِیا۔ اِس فتوے کے بعد مسلمانوں کے سامنے صرف دو رَاستے رہ گئے تھے۔ انگریزوں کیخلاف جہاد کریں یا ملک سے ہجرت کر جائیں۔ یہ دونوں ہی راستے بڑے پُر خطر تھے، مگر خانوادۂ وَلی اللّٰہ نے ہندوستان کے غیّور مسلمانوں میں ایمان اور اِیثار کی جو رُوح پھونک دی تھی، اُس نے اُن کے اندر تمام خطرات سے نمٹنے کا حوصلہ پیدا کر دیا تھا۔

1831ء میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگرد سیّد احمد اور شاہ اِسمٰعیل برادر زادہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے جہاد کا مشکل ترین راستہ اختیار کیا۔ اِس کے لئے پہلے مسلمانوں کے اندر اَعلیٰ مقصد کے لئے جان کی بازی لگا دینے کا عظیم جذبہ پیدا کیا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ سر پر کفن باندھ کر گھروں سے نکل آئے جنہوں نے کمال نظم و ضبط اور جاں نثاری کا مظاہرہ کیا۔ اُس وقت پورے ہندوستان میں انگریزی حکومت قائم ہو چکی تھی اور پنجاب میں سکھ حکمرانوں کے مظالم حددرجہ وحشت ناک ہوتے جا رہے تھے۔

سیّد احمد نے صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) سے جہاد شروع کرنے کا ارادہ کیا اور اُن کا پہلا مقابلہ سکھوں سے ہوا۔ 1828ء میں رائے بریلی (یوپی) سے مجاہدین کا قافلہ روانہ ہوا جو سندھ سے ہوتا ہوا اَور لوگوں میں بیداری کا صور پھونکتا ہوا دَرۂ خیبر سے پشاور پہنچا۔ ایک چھوٹے سے علاقے میں مجاہدین نے اپنی حکومت قائم کر لی جس میں شریعت کے قوانین نافذ کئے جانے لگے۔ مقامی لوگوں کی سخت رنجشوں اور رَنجیت سنگھ کے فرانسیسی جرنیلوں کی کوششوں سے 1831ء میں بالاکوٹ (ہزارہ) کے مقام پر مجاہدین کو شکست ہوئی اور سیّد احمد اور سیّد اِسمٰعیل جامِ شہادت نوش کر گئے۔ بظاہر جہاد ناکام ہو چکا تھا مگر اِس کے ذریعے بہت بڑے خِطے میں عظیم الشان ذہنی اور فکری انقلاب برپا ہو چکا تھا جو رکنے والا نہیں تھا۔ سیّد احمد شہید کے خلفا میں سے مولانا عنایت علی اور مولانا ولایت علی صادق پوری عظیم آبادی نے سلسلۂ جہاد جاری رکھا۔ اُن کے انتقال کے بعد اُن کے بیٹے امیر عبداللّٰہ عظیم آبادی نے سوات کے مرکز مجاہدین سے ایک بار پھر انگریزوں کے خلاف جہاد شروع کر دیا اور 1862ء میں جنرل چیمبرلین کو شکستِ فاش دی۔ اُنہیں چار سال تک ہزاروں افراد اَور بھاری رقوم کی امداد بنگال سے ملتی رہی۔انگریزوں کو جب مجاہدین سے تعاون کرنے والے لاتعداد شہریوں کی سرگرمیوں کا پتہ چلا، تو اُنہوں نے اُن کے خلاف اَن گنت مقدمات قائم کر دیے۔ ہزاروں تختۂ دار پر لٹکا دیے اور اُن کی لاشیں ہفتوں اور بعض مقدمات پر مہینوں درختوں سے لٹکائے رکھنے کے سفاکانہ اِنتظامات کئے گئے۔ مجاہدین کی قیادت کرنے والے اکابرین کالا پانی بھیج دیے گئے۔ اِس ہولناک داروگیر سے مجاہدانہ سرگرمیاں سرد پڑتی گئیں، لیکن سوات کا مجاہدین کیمپ قائم رہا اور تحریکِ مجاہدین کے آخری امیر مولانا فضل الٰہی نے پاکستان بن جانے کے بعد 1948ء میں ترکِ جہاد کا اعلان کیا ۔ (جاری ہے)

تازہ ترین