(گزشتہ سے پیوستہ)
مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی پٹ سن کی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کو مغربی پاکستان کے صنعت کاروں کیلئے مختص کردیا گیا۔ بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے مشرقی اور مغربی بازوئوں کے درمیان معاشی ناہمواری بڑھی۔ مغربی پاکستان کی فی کس آمدنی نے 1970ء تک مشرقی صوبے کی آمدنی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ یہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بڑی وجوہات میں سے ایک تھی۔ملک کے 66فیصد صنعتی اور 87فیصد بینکوں اور انشورنس کو بائیس خاندان کنٹرول کرتے تھے ۔ اس نعرے نے اس وقت کے صدر ایوب خان کے خلاف تحریک میں جان ڈال دی۔ انکی آمرانہ حکومت اکثریتی صوبے کی عوامی نمائندگی کے بغیر تھی۔ بنیادی طور پر مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی اور سول افسران فیصلہ ساز تھے۔ اس سے ایوب حکومت کے خلاف ناراضی میں اضافہ ہوا۔
مشرقی پاکستان کی معاشی حقوق سے محرومی کی بنیاد پر علیحدگی نے کرشماتی شخصیت، ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی مسند پر بٹھا دیا۔ بھٹو کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے اسلامی سوشلزم کا تصور ارزاں کرکے 1970ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ یہ وہ وقت تھا جب سوویت یونین کے سوشلسٹ معاشی نظام نے پالیسی سازوں کے ساتھ ساتھ ماہرین تعلیم کی بھی توجہ حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔ خیال کیا گیا کہ ریاست کی قیادت میں صنعت کاری کے ساتھ معیشت کی اٹھان پر کنٹرول منصفانہ اور شفاف اقتصادی نظام کا باعث بنے گا۔ پیپلز پارٹی نے نظریاتی فروغ سوویت ماڈل سے حاصل کیا۔ جب اس نے اقتدار سنبھالا تو 1960 ء کی دہائی کی صنعت کاری کی حکمت عملی کا اچانک گلا گھونٹ دیا۔ تمام بڑی صنعتوں، بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور تعلیمی اداروں کو مناسب سوچ، تیاری یا منصوبہ بندی کے بغیر قومیا لیا گیا۔ نجی شعبے کو ان صنعتوں اور شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ریاستی ملکیت میں چلنے والے کاروباری اداروں کو سرکاری افسروں کے حوالے کر دیا گیا۔ ان افسران کے پاس پیشہ ورانہ تربیت، کاروباری اداروں کو چلانے کا تجربہ، خطرے سے بچنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس کے علاوہ فیصلہ سازی کیلئے اختیارات تفویض کرنے کے بجائے کنٹرول کی خواہش بھی شدید تھی۔ ان افسران نے ایسے منصوبوں اور سرگرمیوں میں وسائل کو جھونک دیا جو اقتصادی طور پر سود مند تھے اور نہ ہی تجارتی طور پر قابل عمل تھے۔
غریبوں میں دوبارہ تقسیم کے نام پر معاشی ترقی اور صنعتی ترقی کو قربان کر کے غریبوں کو مزید بدحال کر دیا گیا۔ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ سیکٹر نے گزشتہ دو دہائیوں میں 9 فیصد کے مقابلے میں 3 فیصد سالانہ کی شرح نمو ریکارڈ کی ہے۔ ادائیگیوں کے توازن کی مشکلات میں اضافہ ہو گیاکیونکہ درآمدات میں چار گنا اضافہ ہوا۔ درآمدات اور برآمدات کے درمیان وسیع خلا کو بیرونی قرضوں سے پُر کیا گیا۔ 1970ء کی دہائی کے بعد بیرونی قرضوں کا مسئلہ تیزی سے بڑھتا گیا ۔ اقتصادی اور انسانی وسائل کو وسیع پیمانے پر قومی تحویل میں لینے، اور یہی راستہ اختیار کرنے والے کئی ایک ترقی پذیر ممالک میں ہونے والے تجربے کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے شرح نمو کو کم کردیا اور ادائیگیوں کے توازن کو بڑھا دیا۔ تجارت کی شرائط کو گھریلو صنعت کے حق میں موڑ کر برآمدات کے خلاف طویل مدتی تعصب برتا گیا۔
1990 ء کی دہائی میں ہونے والی اہم پیش رفت ترقیاتی پالیسی میں تبدیلیاں لائی ۔ عالمگیریت کی ہواؤں نے بین الاقوامی تجارت کو آزاد کیا، مالیاتی بہاؤ کو کھولا، ٹیکنالوجی کی منتقلی میں آسانی پیدا کی اور بین الاقوامی نقل مکانی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو بتدریج دور کیا، یہ پیش رفت ترقی پذیر ممالک میں ترقی کے امکانات اور غربت میں کمی کا باعث بنی۔ ورلڈ بینک نے ایک بنیادی مطالعہ The East Asian Miracle کیا، جس میں مشرقی ایشیا کے ممالک کی شاندار اقتصادی کامیابی کے ذمہ دار عوامل کی دستاویز تیار کی گئی۔ چین جو کہ روایتی سوشلسٹ ماڈل کے بعد ایک بند معیشت رکھتا تھا، اس نے زبردست کروٹ لی اور خود کو بین الاقوامی معیشت میں ضم کرنا شروع کر دیا اور ملکی منڈیوں کو مسابقتی قوتوں کیلئے کھول دیا۔ تجارتی بہاؤ کو آزاد کر کے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا اورریاستی ملکیتی اداروں کے بوجھ کو کم کرکے نجی شعبے کو فروغ دیا۔پیداوار اور پروسیسنگ میں جدید ترین ٹیکنالوجی کو اپنایا۔ دیہی گھرانوں کو حکومت کے کنٹرول کے بغیر زرعی اجناس اگانے کی ترغیب دی اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنا یا۔ اپنی آبادی کا معیار زندگی بلند کرکے اور 700ملین لوگوں کو غربت سے نکال کر بے مثال ترقی کرنے میں کامیاب رہا۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی طرف سے اختیار کئے گئے واشنگٹن کے اتفاق رائے نے مشرقی ایشیائی اور چینی تجربے کو مارکیٹ دوست اقتصادی پالیسی قرار دیا ۔ دیگر آزاد معاشی ماہرین کا خیال تھا کہ صنعتی پالیسی کی صورت نجی شعبے کو حاصل ریاست کی رہنمائی اس ترقی کا سبب تھی۔ ریاست نے نجی شعبے کی سمت درست رکھی تبھی مطلوبہ نتائج برآمد ہوئے۔ ابھی یہ بحث چل ہی رہی تھی کہ اگلی دو دہائیوں کے دوران عالمگیریت کے اثرات نے واشنگٹن کے اتفاق رائے کے مطابق صنعتی پالیسی کے حامیوں کو پچھلے قدموں پر دھکیل دیا۔ عالمی معاشی حالات ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کیلئے انتہائی سازگار ثابت ہوئے۔ لبرلائزیشن، پرائیویٹائزیشن اور ڈی ریگولیشن اور گھریلو صنعتوں کو تحفظ دینے سے گریز کرنے والے زبردست معاشی پیش رفت کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ پالیسی صنعتی ترقی کا اہم عنصر ثابت ہوئی۔
1990-2010 ء کے دوران غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد ڈرامائی طور پر 2 ارب سے کم ہو کر 897ملین رہ گئی۔ اس سے غریب افرادکا حصہ 37 فیصدسے کم ہو کر 13فیصد رہ گیا۔ ابھرتی ہوئی اور ترقی پذیر معیشتوں کے حقیقی جی ڈی پی میں اوسطاً 4.7فیصد سالانہ نمو دیکھنے میں آئی۔ فی کس آمدنی میں 70فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ آبادی میں اضافے کا حجم نکال کر چین میں یہ بڑھوتری تقریباً 90فیصد رہی۔ اسکی فی کس آمدنی 1980سے 54گنا بڑھ گئی اور اس کا جی ڈی پی آج امریکہ کے برابر ہے۔ (جاری ہے)