انگریزی زبان کا استعمال ہمارے معاشرے میں معیار کی علامت سمجھا جاتا ہے، پڑھے لکھے شخص کی پہچان یہ ہے کہ وہ روانی سے انگریزی بولتا ہو اور لکھتا ہو، انگریزی میڈیم اسکول میں داخلہ ہر والدین کی اولین ترجیح ہوتی ہے، دیگر علاقائی زبان بولنے والے بھی قومی زبان سے زیادہ انگریزی کو اہمیت دیتے ہیں، یہ زبان ہماری عام بول چال میں ایسی رچ بس گئی ہے کہ بعض اوقات کئی الفاظ انگریزی میں ایسے بولے جاتے ہیں کہ جو لگتا ہے کہ اردو ہی کے الفاظ ہیں اور اگر کبھی ان کو اصل اردو میں بولا جائے تو لوگوں کو سمجھ نہیں آتا لہٰذا اس کا ترجمہ انگریزی میں بتایا جاتا ہے تو فورا سمجھ میں آجاتا ہے، فی الوقت حالات یہ ہیں کہ نئی نسل انگریزی کے علاوہ کوئی زبان نا لکھ سکتی ہے نا پڑھ سکتی ہے، اردو بھی وہ رومن میں لکھتی اور پڑھتی ہے، جب کہ پرانی نسل نے ساری زندگی انگریزی کا ترجمہ کرتے ہوئے وقت گزارا۔ ایسے میں ہمارا تعلیمی نظام معیار، جدیدیت، ٹیکنالوجی، وقتی تعلیمی ضروریات سے بہت دور جاچکا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ ملکی حالات و ضروریات کے مطابق تعلیمی نظام وضع کرنے کی بجائے، ساری توجہ دہرے نظام تعلیم پر لگائی گئی جس کا مقصد معاشرے میں طبقاتی تفریق پیدا کرنا
تھا، یوں اس طرح جدیدیت اور ٹیکنالوجی میں عالمی مقابلہ کرنے کی بجائے ہم آپس میں طبقاتی جنگ میں لگ گئے، دنیا بھر کے ممالک نے اپنے معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے اپنا تعلیمی نظام وضع کیا ، یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں ترقی کی شرح بڑھتی چلی گئی، حتی کہ وہ ممالک جنہوں نے ہمارے بعد آزادی حاصل کی، یا ان کی معاشی حالت ہم سے بدتر تھی وہ بھی ترقی کرتے ہوئے ہمیں پیچھے چھوڑ گئے، کیوں کہ ان سب کی توجہ صرف ان کے بہترین نظام تعلیم کی طرف تھی انہوں نے کسی ملک کے تعلیمی بورڈ سے سہارا لینے کی کوشش نہیں کی اپنے یہاں پرائمری، سیکنڈری اور کالج اور پھر اعلٰی تعلیمی ادارے وقت اور عوام کے لئے بنائے ، ہمارے ہاں کی طرح خالص منافع بخش کاروبار نہ سمجھا گیا، ہمارے پڑوسی ممالک بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل گئے اور بغیر منصوبہ بندی کے بنائی گئی تعلیمی پالیسیوں کی بدولت کبھی ایک نظام بناتے ہیں پھر اس کی خامیوں کو دیکھتے ہوئے دوسرے نظام کی طرف چلے جاتے ہیں، 2015 کا ملینیم ڈیولپمنٹ گولز ابھی ہم نے حاصل بھی نہیں کئے کہ اب ہم 2030 کے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گولز کی طرف دوڑ چلے ہیں، 100 فیصد پرائمری تعلیم کا حدف پورا ہوا نہیں کہ ہم پی ایچ ڈیز کی لائن لگوارہے ہیں، اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود ہائر ایجوکیشن کمیشن ایک موثر پالیسی وضع نہ کرسکا، پلیجر ازم کے لئے زیرہ ٹالیرنس رکھنے والا ادارہ خود پالیسی بناتے ہوئے دوسرے ممالک کی پالیسیاں کاپی کرتا ہے اور ہر ملک سے تھوڑا تھوڑا
لے کر ایک موثر پالیسی کی بجائے عجیب و غریب ملغوبہ بنادیا ہے، کبھی اعلٰی تعلیم کے لئے کچھ احکامات آتے ہیں کبھی کچھ، یہی حال ہمارے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ بورڈز کا بھی ہے، اسکولوں اور کالجوں میں پڑھانے کے بجائے ٹیوشن سینٹرز کو فروغ دے کر ملکی وسائل کا ضیاع کیا جارہاہے پھر گیس پیپرز پر بے انتہا انحصار کیا جاتا ہے اور انہی کی بنیاد پر ہر پیپر شروع ہونے سے پہلے آوٹ ہوجاتا ہے، کھلے عام نقل کرنا اور کروانا تو معمولی بات ہے، یہاں تو یہ حال ہے کہ باقاعدہ ٹیوشن سینٹرز کے مالکان پوزیشن خریدتے ہیں اور اپنے ٹیوشن کے بزنس کو خوب پھیلاتے ہیں۔ پرائیویٹ اسکولز الگ منافع خوری پر لگے ہیں، سلیبس پہ بات کوئی نہیں کرتا، سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کی کسی کو فکر نہیں، بڑے سے بڑے سیمینار یا کانفرنس میں چلے جائیں بات یہ ہوتی ہے کہ اب کون سی جدید ٹیکنالوجی آنے والی ہے اس سے کتنے لوگوں کو آرام کرنے کو ملے گا کتنی زندگی آسان ہوجائے گی لیکن کہیں یہ بات نہیں ہوتی کہ آخر اتنے پیسے خرچ ہونے کے باوجود ہمارا معیار تعلیم کب بہتر ہوگا؟ ہم کب خود کوئی نئی چیز ایجاد کریں گے؟ کب ہم ٹیکنالوجی امپورٹ کرنے کی بجائے خود بنائیں گے؟ کب ہمارے سائنس دان اور بزنس مین ہمیں یہ خوش خبری دیں گے کہ ہم بھی کوئی جدید ترین ٹیکنالوجی ایکسپورٹ کرنے کے قابل ہوچکے ہیں؟ افسوس آخر ہم کب جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے پر فخر کرنے کی بجائے ٹیکنالوجی بنانے پر غور کریں گے؟ جب ہم علاقائیت، لسانیت سے بالا تر ہوں گے اور قومی تشخص کو اہم سمجھیں گے۔
minhajur.rab@janggroup.com.pk