میدان طب میں جدید پیشرفت میں سب سے تیزی سے ترقی پانے والا شعبہ اسٹیم سیل ہے جو نئی زندگی کا احساس لے کر آیا ہے۔ اس شعبے کی اس قدر اہمیت کا اندازہ اس سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ذریعے ان امراض کا علاج ممکن ہو گیا ہے جن کا علاج ممکن ہی نہیں تھا۔ مندرجہ ذیل چند مثالیں اگرچہ اس کی وسعت کا مکمل احاطہ نہیں کرتیں ،مگر اس کی اہمیت کو ضرور اُجاگر کر یں گی۔
اسٹیم سیل سے بنائے جانے والے چوہے
اسٹیم سیل ہمارے جسم میں پائے جاتے ہیں ،ان کا کام جسم میں ٹوٹ پھوٹ کاشکارٹشوز (بافتوں) اوراعضاءکی مرمت کرنا ہے۔ یہ جسم کےاندرانتہائی طاقتور مرمت کے نظام کاحصہ ہیں۔ اسٹیم سیل دوسرے مخصوص افعال انجام دینے والےخلیوں مثلاً دل، گردوں عضلات یاخون کے سرخ ذرّات میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا یہ پرانے ٹشوز کو نئے ٹشوز سے تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ 1899ء میں سائنس دانوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ کس طرح ان خلیات کوانسانی جنین سے نکال کر تجربہ گاہ میں ان کی افزائش کی جاسکتی ہے۔
دو سال قبل اس حوالے سے ایک اور بڑی تحقیق سامنے آئی ہے وہ یہ کہ مخصوص بالغ خلیہ (سیل) مثلاً جلد کے خلیے کو جینیاتی طور پر دوبارہ جسم میں داخل کرکے ایسے خلیات میں تبدیل کیا جاسکتا ہےجوکہ اسٹیم سیل سے مشابہ ہوں۔ ان خلیات کو پہلی دفعہ چوہے سے دریافت کیاگیا۔ مستقبل میں اسٹیم سیل کااستعمال خراب دل،گردوں اور دوسرے ٹشوز کی مرمت میں اہم کردار ادا کرے گا، جس سے بیماریوں کے علاج میں انقلابی تبدیلی کی توقع ہے۔ چوہےکی جلد سے تیار کیا جانے والا پہلا چوہا چینی اکیڈمی آ ف سائنس، بیجنگ میں کام کرنےوالےسائنسدانوں نے تیار کیا ہے۔ اس کے ساتھ اس بات کی بھی تصدیق ملی ہےکہ جسم کےتمام حصوں میں اسٹیم سیل موجود ہیں۔
اسٹیم سیل سے تیار کردہ بینڈیج
اسٹیم سیل سے علاج گردوں اور دل کے خلیات یا ذیابیطس کے مرضوں کے لیے انقلابی قدم ثابت ہورہا ہے۔اسٹیم سیل انسانوں اور دوسرے جانوروں میں پائے جاتے ہیں جو مزید اسٹیم سیل بنانے کے لیے تقسیم ہوجاتے ہیں، تقسیم کے عمل کے بعد یہ مختلف اعضاء (دل، گردے، لبلبہ) وغیرہ تشکیل دیتے ہیں۔ اسٹیم سیل تھراپی کا طریقہ کار مغز ہڈیBone Marrow پیوند کاری اور خون کے کینسرکے لیے کافی عرصے سے کیا جارہا ہے۔ برسٹل یونیورسٹی برطانیہ کے سائنس دانوں نے ایک بینڈیج تیار کی ہے، جس میں اسٹیم سیل کو پیوست کیا گیا ہے، یہ بینڈیج نرم ہڈیوں( Cartrillage)کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت میں کام آئے گی ،جس کے زخم عام طور پر بہت مشکل سے بھرتے ہیں۔
ہڈی کے گودے میں سے اسٹیم سیل کو نکال کر اس کو مزید تقسیم کے عمل سے گذارا جائے گا، اس کے بعد اس کو ایک خاص جھلی میں پیوست کردیا جائے گا۔ اور یہ ہڈی پھٹی ہوئی یا نرم ہڈی میں داخل کردی جائے گی جھلی میں موجود اسٹیم سیل زخم کے بھرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ ہم سب جانتےہیں کہ پٹھے (مسلز )بنانابہت مشکل ہے۔ نیدرلینڈکی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نےبایو انجینئرنگ کی مدد سےخون کی شریانوں کےساتھ پٹھوں کی بافتوں کو بنانے کا طریقہ ایجاد کیا ہے۔
پٹھوں کی بافتوں کو اس طریقے سے منظم کرنےکی ضرورت ہوتی ہےکہ یہ تمام ایک ہی سمت میں رہیں ،تاکہ قوت پیداکی جاسکے،اور ہر پٹھےتک کی خون کی فراہمی جاری رہے، تاکہ ان کو بھر پور غذا صحیح انداز میں پہنچ سکے۔ مسلز کی ایک یکساں سمت میں ترتیب کا مسئلہ اس طرح حل کیا گیا کہ velcro کا استعمال کرتے ہوئے ٹشوز کے ٹکڑوں کو سختی سےباندھ دیا گیا۔ نموکےعمل کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناوَ نے مسلز اور خون کی نالیوں کو بےترتیب جڑنے کے بجائے ایک قطار میں جوڑ دیا۔ سائنس دان اس کوشش میں ہیں کہ اس طریقے کا اطلاق ان مریضوں پربھی کریں جن کےاعضاء حادثہ،زخم یا کینسر کے آپریشن کے نتیجےمیں ضائع ہوجاتے ہیں۔
نابیناؤں کو بینائی دینے کی تیاری
اسٹیم سیل کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ جانوروں کے ایمبریو سے حاصل ہونے والا Embryonic اسٹیم سیل (Blastocyles کا اندرونی خلوی مادّہ اور بالغ اسٹیم سیل جو کہ مختلف اعضا کے بالغ ٹشوز (بافتوں) میں پایا جاتا ہے۔ اسٹیم سیل مختلف اقسام کے خلیوں (سیل) میں تقسیم ہو سکتا ہے (اعصاب، گردے، دل کے خلیات وغیرہ) کیوں کہ یہ ٹوٹے ہوئے یا مختلف بیماری کا شکار اعضا کی مرمت یا علاج میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
لہٰذا اسٹیم سیل مستقبل میں دواؤں کے طریقہ کار کو بھی تبدیل کر دیں گے۔ یہ مستقبل میں درجہ ٔحرارت یا جلنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہونے والوں کی بینائی کی بحالی کے حوالے سے ایک اہم ترین دریافت ہے۔ اٹلی کی موڈینا یونیورسٹی میں جلنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہونے والے 107میں سے 82 افراد کے اسٹیم سیل سے علاج کے ذریعے بینائی بحال کردی گئی۔
ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑنا
اس وقت دنیا بھر میں اموات کی سب سے اہم وجہ دل کی بیماریاں ہیں۔ اسٹیم سیل پر کی گئی تحقیق میں ہونے والی تیز رفتارپیش رفت کی وجہ سے دل کے مریضوں کے لیے ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے جیسا کہ ان کے ذریعے دل کی مختلف بافتوں کو پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اسٹیم کے سیل کے ذریعے مختلف دل کے خلیوں کے علاج کے طریقہ کار کی آزمائش امریکا، جرمنی، برطانیہ، کوریا اور برازیل میں جاری ہے۔
ان میں سے اکثر اسٹیم سیل کو خود مریض کی ہڈیوں کے گودے سے حاصل کیا گیا ہے۔ بوسٹن کے میساچومٹس جنرل اسپتال میں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ کس طرح Multipotent خلیات کے ذخیرے میں سے اسٹیم سیل دل کی مختلف بافتوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ مستقبل میں اسٹیم سیل کو ناکارہ دلوں کے علاج کے استعمال کیا جا سکے گا۔
اسٹیم سیل سے خون بنانا
حالیہ چند سالوں میں اسٹیم سیل کے میدان میں ہونے والی پیش رفت سے دواؤں کی شکل تبدیل ہونے کی توقع ہے۔ اسٹیم سیل کو دل، گردے اور دوسرے اقسام کے خلیوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، جس سے خراب اعضا کی مرمت کا مسئلہ حل ہونے کی توقع ہے۔ ابتدا میں ان کو صرف جنینی Embyonic خلیات سے بنایا جا سکتا تھا، جس سے تحقیق کا یہ میدان متنازعہ ہو گیا تھا، مگر اب ان کو جسم کے مختلف اعضا مثلا ہڈی کے گودے Bone Marrow جلد وغیرہ کے خلیات سے بھی بنایا جا سکتا ہے۔ Induced Pluripotent Stem Cell اور ان کو بعض تحریک دینے والے عوامل کی موجودگی میں دوسرے خلیات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
جنینی (Embryonic) اسٹیم سیل کو اب خون کے سرخ ذرّات اس مقدار میں تیار کرکے استعمال کیا جارہا ہے کہ اس کو خون کی منتقلی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یہ طریقہ کار Advanced Technology Cell کے ذریعے وضع کیا گیا ہے۔ اس سے کافی عرصہ قبل سرخ خون تیار کرنے والی خود کار مشین بنائی گئی تھی جو کہ بین الاقوامی طور پر منتقل کرنے کے قابل خون فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
ذیابیطس کا علاج
برازیل کے سائنس دانوں نے بالآخر اسٹیم سیل سے ذیابطیس کا علاج دریافت کر لیا ہے۔ Dr. Julio Voltarelli کی سربراہی میں ایک ٹیم نے ذیابیطس قسم اول کے 51مریضوں کے خون سے اسٹیم سیل نکالا۔ ابتدا میں ان51مریضوں کے کمزور مدافعتی نظام کو جان بوجھ کر دوا کے ذریعے تباہ کیا گیا، تا کہ ان ضرر رساں خلیات کو نکالا جا سکے جو Pancreatic Islet پر حملہ کرتے ہیں۔
اس کے بعد ان مریضوں میں اسٹیم سیل انجکشن کے ذریعے داخل کروائے جاتے ہیں جو کہ تیزی سے نیا اور زیادہ تیز رفتار نظام تشکیل دیتے ہیں۔ یہ مریض انسولین کے انجکشن کے بغیر رہ سکتے ہیں یا پھر ان کی انجکشن کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ یہ کام 2007 میں کیا گیا تھا ،مگر اُس وقت اس کو متنازعہ سمجھا جارہا تھا۔ ذیابطیس کا علاج اب بس متعارف ہونے والا ہے۔ پاکستان میں اسٹیم سیل کی تحقیق دو اداروں میں شروع ہونے والی ہے۔
کینسر سے جنگ میں میزائل
اسٹیم سیل تحقیق کے میدان میں دل، گردوں اور دوسری بیماریوں کے علاج کے لیے نئے راستے کھل رہے ہیں۔ اب اسٹیم سیل کو کینسر کے علاج کے لیے گارڈڈ میزائل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ڈوارٹے کیلی فورنیا میں قائم Duarte Beckmann Research Institute میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے دماغ کے کینسر کے مرض میں مبتلا چوہے کے دماغ میں جینیاتی طور پر ترمیم شدہ اسٹیم سیل انجکشن کے ذریعے داخل کیا اور پھر چوہے کو کینسر کے خلاف کام کرنے والی دوائیں دی گئیں۔
مشاہدہ کیا گیا کہ جس چوہے کا پہلے اسٹیم سیل سے علاج کیا گیا تھا ۔اس کے رسولی کے حجم میں بغیر علاج شدہ کے مقابلے میں70 فی صدکمی ہو گئی۔بلکہ اس کے ذریعے ان خلیات کی ثانوی نشوونما کو بھی روکا جا سکتا ہے، اس طریقے پر عمل کر کے کینسر کے واحد خلیے کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس تصور کو استعمال کرتے ہوئے انسانوں پر تجربات جلد ہی شروع کیے جائیں گے۔
اسٹیم سیل ادویات کے میدان میں نئی سرحدیں
ادویات کے میدان میں ایک نیا ابھرتا ہوا میدان اسٹیم سیل کا استعمال ہے جو کہ نقصان کا شکار اعضا کی مرمت کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ انسانوں میں استعمال کیے جانے والے اسٹیم سیل کی دو اقسام ہیں۔ جنینی اسٹیم سیل اور بالغ اسٹیم سیل۔ اسٹیم سیل دوسرے خلیات کے ساتھ مل کر جسم میں ٹوٹی ہوئی بافتوں (ٹشوز) کی مرمت کا کام کرتے ہیں کیوں کہ ان کے اندر جسم کے مختلف دوسرے خلیات میں تبدیل ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ان خلیات کی کلچر کے ذریعے نمو کر کے ان کو مختلف دوسرے خلیات مثلا اعصابی، جلدی، یا آنتوں کے خلیات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
اسٹیم سیل کے حوالے سے ایک حالیہ پیش رفت میں یہ معلوم ہوا ہے کہ مختلف دواؤں کے استعمال سے ہڈی کے گودے سے مختلف اقسام کے اسٹیم سیل کے اخراج کے عمل کوبذریعہ دخول پیدا کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مریض کے لیے مختلف دہندگان (Donors) سے حاصل کردہ اسٹیم سیل (اس صورت میں مریض کا جسم وہ اسٹیم سیل قبول کرنے سے انکار بھی کر سکتا ہے) استعمال کرنے کے بجائے مریض کا اپنا اسٹیم سیل اس کے ہڈی کے گودے سے خارج کروادیا جائے تواس کے ذریعے مخصوص بافتوں (ٹشوز) کی مرمت اور دوبارہ پیدائش میں مدد مل سکتی ہے۔
مریض کے اپنے اسٹیم سیل کو منتخب انداز سے خارج کرنے کی صلاحیت اس تیزی سے ترقی پذیر میدان کے حوالے سے انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ یہ کام امیپریل کالج لندن کی پروفیسر سارا رینکن اور ان کے ساتھیوں نے انجام دیا۔ اس پیش رفت سے دل کے ٹوٹے پھوٹے ٹشوز (بافتوں) کی مرمت اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں اور جوڑوں کی مرمت کے عمل کو تیز کرنے اور ان کے علاج میں مدد مل سکے گی۔