• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریک گوشے میں اور تخلیقی دنیا میں ’’شوکت صدیقی‘‘

شوکت صدیقی بیس ویں صدی میں اردو فکشن کی تاریخ کے ان نام ور اور نمایاں لوگوں میں ہیں جنھوں نے اپنے عہد کے ادب کے مرکزی دھارے میں نہ صرف اپنی جگہ بنائی، بلکہ خود اس دور کے اردو فکشن کو پذیرائی اور مقبولیت کے اعتبار سے کچھ ایسے نئے پیمانوں سے بھی متعارف کروایا جن کا ماقبل ادبی دنیا میں رجحان نہیں تھا۔ معاصر فکشن کی تاریخ بلاشبہ اُن کی کارگزاری کے تذکرے کے بغیر ہرگز مکمل نہیں ہوسکتی۔ 

دوسری طرف یہ بھی انھی کا حصہ ہے کہ معاصر تنقید نے اپنے جن معروف لکھنے والوں سے اغماض برتا، ان میں بھی شوکت صدیقی کا نام شامل ہے، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اُن لوگوں میں ہیں جنھیں اُن کے عہد اور مابعد زمانے کی تنقید نے تقریباً نظر انداز کیا، اِکا دُکا تنقیدی مطالعے کے سوا اُن کا تذکرہ بیس ویں صدی کی اردو تنقید میں نہیں ملتا،حالاں کہ اُن کے پہلے اور سب سے مقبول ناول ’’خدا کی بستی‘‘ کا چرچا نقدِ ادب کے بازار میں خاطر خواہ ہوا تھا۔ 

شوکت صدیقی نظریاتی اعتبار سے ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ وہ اُن لوگوں میں تھے جنھوں نے اپنی فن کارانہ جستجو میں گہری نظریاتی وابستگی کا اظہار کیا تھا۔ ’’خدا کی بستی‘‘ کی حد تک تو ترقی پسند تحریک کے ناقدین بھی بالاہتمام اُن کے فن اور کارگزاری کے معترف نظر آتے ہیں، لیکن یہ سارا معاملہ ’’خدا کی بستی‘‘ تک ہی محدود رہتا ہے، اس سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ سوال کیا جاسکتا ہے، آخر ایسا کیوں؟

مختصر سے اس سوال کا جواب دشوار تو خیر نہیں ہے، لیکن کسی قدر تفصیل طلب ضرور ہے۔ اختصار سے بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی دو اہم وجوہ ہیں۔ ایک تو وہی ہماری تنقید کی کوتاہ عملی جس میں گاہے بہ گاہے ایک وضع کی ارسٹو کریسی والا مزاج بھی کردار ادا کرتا ہوا نظر آتا ہے،دوسرے شوکت صدیقی کی نظریاتی وابستگی کا گہرا اور عملی رویہ بھی اس کا ایک اہم جواز ٹھہرا۔ تنقید کی کوتاہی اور ناخن کے قرض کی اب کیا شکایت کیجیے، البتہ اہلِ نقد کے یہاں پائی جانے والی ارسٹو کریسی کیا ہے اور کیوں ہے ،اس پرآگے چل کر بات کرتے ہیں۔ 

اب رہا معاملہ شوکت صدیقی کی گہری اور عملی نظریاتی وابستگی کی تو، اس کا قصہ یہ ہے کہ وہ محض ذہنی حد تک نظریاتی آدمی نہیں تھے، بلکہ عملی سیاست میں بھی ایک دور میں خاصے سرگرم رہے۔ وہ بائیں بازو کا رجحان رکھنے والے آدمی تھے۔ اس حوالے سے وہ ایک زمانے میں ایک حد تک سیاست سے وابستہ اور بھٹو صاحب کے قریب بھی رہے تھے اور ان کی پارٹی کے سیاسی امور اور اقدامات سے انھوں نے عملی تعلق کا اظہار کیا تھا۔ روزنامہ ’’انجام‘‘ اور ’’مساوات‘‘ کی ادارت سے ان کی وابستگی اسی عملی سیاست کی وجہ سے ہوئی تھی۔ خیر، سیاست سے تو وہ لگ بھگ اسّی کی دہائی کے وسط میں کنارہ کش ہوگئے تھے، لیکن اپنی فن کارانہ جستجو میں ان کا بائیں بازو کی طرف نظریاتی جھکائو تاعمر قائم رہا۔

شوکت صدیقی کا اسلوبِ تحریر سماجی حقیقت نگاری سے تعلق رکھتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ صرف تحریر کا اسلوب ہی نہیں، بلکہ جن موضوعات پر انھوں نے کم و بیش چھہ دہائیوں سے زائد عرصے قلم اٹھایا اور اپنے فکشن کی دنیا کو خلق کرنے کے لیے جن کرداروں کو منتخب کیا، ان کی زندگی کے جن مسائل اور واقعات پر توجہ مرکوز کی،جن سماجی معیارات اور اخلاقی رجحانات کو مطمحِ نظر بنایا، وہ سب کے سب بائیں بازو کے ذہنی رویے کے نمائندہ تھے۔ ان کے افسانوں کے پہلے مجموعے ’’تیسرا آدمی‘‘ سے لے کر آخری دور کے مجموعے ’’کیمیاگر‘‘ دو مشہور ناولوں ’’خدا کی بستی‘‘ اور ’’جانگلوس‘‘ تک اُن کے فن کی دنیا کا جائزہ لیا جائے تو جو شے سب سے پہلے ہماری توجہ کا مرکز بنتی ہے، وہ ان کے کردار اور ان کا باہمی ماجرا ہے جو ایک خاص زاویے سے دیکھے گئے سماجی تناظر میں رُو پذیر ہوتا ہے۔ 

اپنی نظریاتی وابستگی کے سلسلے میں شوکت صدیقی فن اور زندگی دونوں میں کسی تأمل کا اظہار کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ تأمل تو رہا ایک طرف، وہ تو فن اور زندگی دونوں سطحوں پر اس حوالے سے اصرار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اپنی گفتگو میں بھی اس کا برملا اور واشگاف الفاظ میں اظہار کرتے۔ اس لیے ادب میں ان کی شناخت کا بنیادی حوالہ محض ادیب نہیں، بلکہ ایک نظریاتی ادیب کا بنتا ہے۔ ایک ایسے نظریاتی ادیب کا جو ادب برائے زندگی کا نظریہ صرف ذہنی سطح پر ہی نہیں رکھتا، بلکہ جس کا فن از اوّل تا آخر اس نظریے کا عملی پرچارک بھی نظر آتا ہے۔

کردار افسانوں کے ہوں یا ناولوں کے،اُن کو درپیش صورتِ حال بھی شوکت صدیقی کے یہاں ہر جگہ فرد اور سماج کے باہمی رشتے، اس کی متنوع صورتوں اور دونوں کے جداگانہ مظاہر میں ہر ممکن طریقے سے بائیں بازو کا نظریاتی اثر ایک برقی رو کی طرح دوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے، تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ شوکت صدیقی نے اس رشتے اور اس کے مسائل کو اپنے کرداروں کی زندگی اور ان کے سماجی معاملات میں سمجھنے کے لیے تعمیر سے زیادہ تخریب کے حوالوں کو ملحوظِ نظر رکھا ۔ اُن کے اوّلین افسانوں میں کچھ کردار اپنی دنیا بنانے یا ڈھونڈنے کی کوشش میں نظر آتے ہوں یا آخرِ عمر کے افسانوں میں اپنی دنیا میں جیتے ہوئے لوگ،دونوں ہی دائروں میں دیکھتے ہیں کہ اکثر و بیشتر شوکت صدیقی نے کہیں فرد کے اندر کی تاریکی اور کہیں سماج یا شہر کے گوشوں میں ٹھہرے ہوئے اندھیرے کو موضوع بنایا ہے۔

’’خدا کی بستی‘‘ کو شوکت صدیقی کی فنی زندگی کا میگنم اوپس یا ان کی فن کارانہ شناخت کا سب بڑا اور نہایت مستحکم حوالہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس ناول نے اپنی اوّلین اشاعت (۱۹۵۷ء) کے فوری بعد ہی عوام و خواص میں اپنا ایک حلقۂ اثر بنانا شروع کر دیا تھا۔ اس اعتبار سے اس ناول کو اپنے بعد شائع ہونے والے اردو کے دو بڑے تخلیق کاروں کی شناخت کا بنیادی حوالہ بننے والے ناول یعنی ’’آگ کا دریا‘‘ (قرۃ العین حیدر، ۱۹۵۹ء) اور ’’اداس نسلیں‘‘ (عبد ﷲ حسین ۱۹۶۳ء) پر اشاعتی حوالے ہی سے اوّلیت حاصل نہیں ہے، بلکہ عوامی اثر پذیری میں بھی یہ ناول ان پر بلاشبہ سبقت رکھتا ہے۔ اس ناول کی پذیرائی کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ چھہ دہائیوں کے عرصے میں، اس کے متعدد ایڈیشنز منظرِعام پر آئے ہیں۔

یہ ناول آج بھی پڑھا جاتا ہے اور عوامی حافظے میں ہی نہیں ادبی حلقوں میں بھی کسی نہ کسی عنوان میں اس کا ذکرہوتا رہتا ہے۔ اس کا سبب ناول کے کردار، اُن کا باہمی تعلق اور ان پر انفرادی و اجتماعی دونوں صورتوں میں گزرتا ماجرا تو ہے ہی، لیکن اس کے ساتھ شوکت صدیقی کا فن کارانہ ٹریٹمنٹ اور انسانی تقدیر کو اس کے اعمال و افعال کے تسلسل میں دیکھنے اور بیان کرنے کا ہنر بھی ہے۔ یہاں تقدیر کرداروں کے احوال کی تشکیل و تخریب میں ایک کیٹالسٹ کا کردار تو ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے، لیکن اس کا اثر جبر نہیں، بلکہ اختیار اور تدبیر کا پیدا کردہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ ناول انسانی سماج میں خودغرضی، بے حسی، بے رحمی اور بدی کی متنوع صورتوں کو سمجھنے کی ایک غیر معمولی کوشش ہے۔

’’خدا کی بستی‘‘ جرم کی دنیا کی کہانی تو خیر نہیں ہے، لیکن ہمارے اطراف انسانی زندگی میں جرائم کس طرح پیدا ہوتے اور کیوں کر نمو پذیر رہتے ہیں اور جرم سے لاتعلق رہنے بلکہ نفرت کرنے والے افراد کیسے ان کی لپیٹ میں آتے ہیں، انسانی کردار کے تاریک گوشے کس طرح پہلے ایک شخص کی پوری زندگی بنتے اور اس کے توسط سے دوسرے انسانوں کو گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گھسیٹ لیتے ہیں، ان سب پہلوؤں کو شوکت صدیقی نے نیاز کباڑیے، ڈاکٹر موٹو، انشورنس ایجنٹ، نوشہ اور سلطانہ جیسے کرداروں کے ذریعے پوری طرح بیان کیا ہے۔ 

یہ سب کردار ویسے تو اپنی اپنی زندگی جیتے ہیں، لیکن تقدیر کی بساط پر ان کی حیثیت ایسے مہروں کی ہے جو اپنے اپنے وقت پر آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے مقابل آتے اور اپنی تدبیر و تخریب کے ذیل میں تقدیر کے لکھے کو پورا کرتے ہیں، تقدیر کا یہ سفر منجمد صورت یا خارج سے عائد کسی حالتِ جبر کے تحت ہمارے سامنے نہیں آتا، بلکہ ان کرداروں کے اختیار و عمل کے نتیجے میں تقدیر کے چہرے سے نقاب اٹھتا چلا جاتا ہے، اور زندگی کا عمل انسان کی سفاک فطرت کے ساتھ عیاں ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسے سماج کا احوال ہے جہاں چھوٹے چھوٹے تاریک دائرے ایک دوسرے کی طرف بڑھتے اور کھنچتے ہوئے وقت کی راہ داری میں آپس میں یوں ملتے ہیں کہ اندھیرے کے ایک مہیب اور دیو قامت وجود کی تشکیل ہوتی ہے۔ ایک ایسے وجود کی تشکیل جو ان کرداروں اور ان کے سماج کے پورے ایک طبقے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

’’جانگلوس‘‘ بھی ایک سماجی عمل کا منظرنامہ رکھتا ہے، لیکن تفاعل کی یہ دنیا درحقیقت جرائم کا ایک وسیع و عریض کارخانہ ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ جرائم کی پوری انڈسٹری جہاں سماج کا ہر پرزہ اپنے اپنے دائرے میں یا تو خود کسی جرم کی کارروائی میں مصروف ہے یا پھر اس کی لپیٹ میں آرہا ہے۔ رحیم داد اور لالی اس کے نمایاں کردار ہیں، لیکن یہ کردار بھی تاریکی میں ملفوف ہیں۔ اردو فکشن میں جرائم کی کہانیاں سنجیدہ ادب کے دائرے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمارے یہاں ادب میں اس کی کوئی روایت ہی قائم نہیں ہوئی۔ ڈائجسٹ انڈسٹری نے البتہ ایسا بہت مواد پیش کیا۔ لیکن’’جانگلوس‘‘ ڈائجسٹ کی سطح کی چیز نہیں ہے،تاہم اس ناول میں وہ عناصر بھی بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں جو جاسوسی اور جرائم کی مقبول کہانیوں جنھیں مغرب میں تھرلر کہا جاتا ہے، سے مخصوص سمجھے جاتے ہیں۔ 

انڈر ورلڈ کے تاریک منظرنامے اور اس کے اَن گنت کرداروں کو اس ناول میں ابھارا گیا ہے، توجہ طلب امر یہ ہے کہ شوکت صدیقی نے جرائم کی اس دنیا کو ایک الگ سماج کے طور پر پیش نہیں کیا، وہ اسے ایک متوازی دنیا تو بے شک دکھاتے ہیں، لیکن یہ ہمارے سماج سے باہر یا اس کے مقابل کہیں نہیں ہے، بلکہ اس کے اندر ہی اپنا وجود رکھتی ہےاور اس کے رگ و ریشہ ہی میں پنپتی، پروان چڑھتی اور نمو پاتی جرائم کی دنیا بھی ہے۔ مغرب میں تھرلر کی دنیا بالعموم ایک الگ سماج یا ایک متوازی زندگی کے طور پر سامنے آتی ہے، جس کے روز و شب ہمارے سماجی حقائق کے دن رات سے اس حد تک الگ ہوتے ہیں کہ انھیں باہم تطبیق ہی نہیں دی جاسکتی۔ اس کے برعکس شوکت صدیقی نے ان دونوں دنیائوں کو باہم مدغم رکھتے ہوئے انسانی احوال اور تجربات کو کہیں تضاد اور کہیں توسیع کے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ دراصل یہی وہ فن کارانہ ہنر ہے جو اس ناول کو محض ایک تھرلر کی سطح پر نہیں رہنے دیتا، بلکہ اسے انسانی احوال کی اس رُوداد کے قریب لے آتا ہے جس کا مطالعہ دراصل ہم ادب میں کرتے ہیں۔

’’خدا کی بستی‘‘ کے بعد ’’جانگلوس‘‘ کو پڑھتے ہوئے کسی نہ کسی مرحلے پر یہ خیال تو بے شک قاری کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ جرم اور استحصال کے عنصر کو انسانی فطرت کے تناظر میں سمجھنے کی جس کوشش کا آغاز شوکت صدیقی نے اپنے پہلے ناول میں کیا تھا، وہی جستجو انھیں اس دوسرے ناول کے بڑے سیاق تک لے کر آئی تھی، لیکن اس قیاس کی واضح انداز میں توثیق خود شوکت صدیقی کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ 

وہ ’’جانگلوس‘‘ کو ایک الگ دنیا کے احوال اور جداگانہ طرزِ حیات رکھنے والے کرداروں کا ماجرا بتاتے ہیں اور اس ناول کی تخلیق کی تحریک میں بھی وہ اپنے پہلے ناول کو کسی طرح کا کردار ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ بادی النظر میں یہ دونوں ناول جرم اور استحصال کے بنیادی موضوع سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنے مزاج، اسلوب، تجربات اور بنیادی تفتیش کے حوالے سے ایک دوسرے سے الگ نظر آتے ہیں۔ تاہم اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں ناولوں کی کہانی کی اساس انسانی فطرت میں پائے جانے والے جرم کے جذبے پر ہیں۔

یہ دونوں ناول عوام میں غیر معمولی دل چسپی اور مقبولیت کے حامل ٹھہرے، ’’خدا کی بستی‘‘ بہت زیادہ اور ’’جانگلوس‘‘ کسی قدر کم، لیکن دونوں کی عوامی پذیرائی ادبی ناول کی عمومی پذیرائی کے دائرے سے کہیں زیادہ رہی۔ دونوں پر الیکٹرونک میڈیا نے توجہ کی اور دونوں ہی کی ڈرامائی تشکیل ہوئی۔ ظاہر ہے، پسندیدگی اور مقبولیت کا یہ عالم مصنف کے لیے اطمینان،قارئین اور ناظرین کے تئیں قابلِ رشک رہا ہوگا۔ اب آئیے، اس مرحلے پر ہم اُس سوال کی طرف پلٹ کر دیکھتے ہیں جو ہم نے اپنی گفتگو کے آغاز میں تنقیدی ارسٹو کریسی کے بارے میں اٹھایا تھا۔ 

جی ہاں، اب یہ بات کہے جانے میں چنداں مضائقہ نہیں کہ یہ امر قرینِ قیاس ہے کہ اسی عوامی پذیرائی اور الیکٹرونک میڈیا کی توجہ نے ہمارے سنجیدہ اور ثقہ ناقدین کو شوکت صدیقی کے کام کے بارے میں تخمین و ظن کے اظہار سے گریز پا رکھا۔ ان کے دوسرے ناول کے بارے میں تو بالخصوص یہ خیال کیا گیا کہ سنجیدہ ادب سے زیادہ جرم اور جنس کی دنیا کی یہ ویسی ہی کہانی ہے جیسے پاپولر فکشن لکھنے والوں کے یہاں بالعموم پائی جاتی ہیں۔

شوکت صدیقی کے صد سالہ یومِ ولادت کے موقعے پر اس عہد کے نئے ناقدین سے یہ تقاضا بے جا نہ ہوگا کہ وہ شوکت صدیقی کا ازسرِنو مطالعہ کریں اور اپنے عہد کے سیاق و سباق کو ملحوظِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کن طور پر دریافت کریں کہ واقعی ان کا فن محض عوامی دل چسپی کی شے ہے یا سنجیدہ ادب کے قارئین کے لیے فطرتِ انسانی اور احوالِ آدم کے حوالے سے کچھ غور طلب پہلو بھی رکھتا ہے۔

اردو کے عظیم ناول نگار، ممتاز صحافی شوکت صدیقی 20 مارچ، 1923ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ 1950ء میں کراچی آ ئے۔ 1952ء میں شادی ہوئی۔ عملی زندگی کا آغاز 1944میں ماہنامہ ’ترکش‘ سے کیا۔ روزنامہ ’مساوات‘ کراچی کے بانی ایڈیٹر، روزنامہ "مساوات” لاہور اور روزنامہ "انجام” کے چیف ایڈیٹراور ایک عرصہ تک وہ ہفت روزہ ’الفتح‘ کراچی کے سربراہ بھی رہے ۔

٭…… اعزازات ……٭

آدم جی ادبی ایوارڈ (1960ء)… تمغہ حسن کارکردگی (1997ء)… کمال فن ایوارڈ (2002ء)… ستارۂ امتیاز (2003ء)…

خواجہ غلام فرید آدبی ایوارڈ (2000ء)

شوکت صدیقی نے کئی ڈرامے، کالم، ناول اور افسانے لکھے۔ آپ کے کالم ’طبقاتی جدوجہد اور بنیاد پرستی‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔ افسانوی مجموعوں میں ’تیسرا آدمی‘ 1952ء، ’اندھیرا اور اندھیرا‘ 1955ء، ’راتوں کا شہر‘ 1956ء اور ’کیمیا گر‘ 1984ء شامل ہیں۔ ناول، ’کمیں گاہ‘ 1956ء، ’خدا کی بستی‘ 1958ء، ’جانگلوس‘ 1988ءاور ’چار دیواری‘ 1990ء میں شائع ہوئے۔

"جانگلوس” ان کا ایک طویل ناول ہے ،جس کے اب تک کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس ناول کوپنجاب کی الف لیلیٰ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے ناول "خدا کی بستی” کے 46 ایڈیشن شائع ہوئے اور یہ اردو کا واحد ناول ہے جس کا 42 دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔

شوکت صدیقی نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوج میں کمیشن حاصل کیا اور سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے آرمی کے سگنل کور سے ملازمت کا آغاز کیا۔ فوج کی ملازمت کا یہ عرصہ تقریباً دوبرس (جنوری 1942ء تا نومبر 1943ء) پر مشتمل تھا۔ بعدازاں انہوں نے فوج سے استعفیٰ دے کر لیبر ویلفیئر آفیسر کی حیثیت سے ملازمت اختیارکی۔ (اس ملازمت کے دوران انہیں بھوپال میں جنگی قیدیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جس سے متاثر ہو کر انہوں نے افسانہ ’’مردہ گھر‘‘ لکھا جو اُن کے افسانوں کے دوسرے مجموعے ’’اندھیرا اور اندھیرا‘‘ میں شامل ہے۔ والدین کے اصرار پر چند ماہ بعد یہ ملازمت ترک کرکے واپس لکھنٔو آگئے اور اپنے بڑے بھائی دلدار حسین صدیقی کے کاروبار میں اُن کا ہاتھ بٹانے لگے۔کراچی آنے کے بعد انہوں نے ذریعۂ معاش کے طور پر صحافت کا پیشہ اپنایا، پھر فوجی آمریت کی سنسرشپ سے دل برداشتہ ہوکر 1984ء میں صحافت کے کوچے کو ہی خیرباد کہہ دیا۔

کراچی میں جنوری 1959ء میں رائٹرز گلڈ کا قیام عمل میں آیا۔ شوکت صدیقی کئی مرتبہ اس کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہوئےاورکے مرکزی اعزازی معتمد انتظامیہ اور قائم مقام جنرل سیکریٹری کے فرائض بھی انجام دیے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی