انتخابات 2018ء کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کے بعد جب صدر آصف علی زرداری اسمبلی ہال سے باہر آئے تو صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے پر آپ کیا کہیں گے؟ صدر آصف زرداری نے جوابی سوال کیا، انہیں اقتدار میں تو لایا گیا مگر کرےگا کیا؟ عمران نیازی نے اقتدار میں آکر کیا کیا؟ اگر چہ یہ ماضی کاحصہ بن چکا ہے مگر اس نے جو تباہی مچائی اس کے سنگین اثرات سب کے سامنے ہیں۔ ہم اسے نااہل اور نالائق کہتے رہے مگر یہ وہم و گمان میں نہیں تھا کہ وہ کس قدر سازشی اور خطرناک ہوگا۔مثال کے طور پر متحدہ اپوزیشن نے اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ایوان میں پیش کی تو اس نے سائفر کہانی گھڑکر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنے کے بجائے اسپیکر ،ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور صدر مملکت کو ساتھ ملا کر قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی کوشش کی جو ہر حوالے سے آئین شکنی تھی مگر سپر ڈومیسائل کی وجہ سے آئین کے آرٹیکل نمبر 6کی کارروائی سے صاف بچ گئے۔یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ عمران خان کو سیاست میں لانے والے واقعی بڑے فنکار تھے۔
میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتی ہوں کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری خارجہ امور میں کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد ملک میں سیاسی استحکام پر زور دیتے رہے۔ ان کا اصرار یہ تھا کہ ممنوعہ فنڈنگ اور القادر ٹرسٹ پر وقت ضائع کرنے کی بجائے ہمیں ملک کی معیشت اور عوام کو درپیش مشکلات کے حل پر توجہ دینا چاہئے۔ بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات پر زور دیا اور اس مقصد کیلئے سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جو تمام سیاسی قیادت سے مذاکرات کر رہی تھی۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری خود بھی مولانا فضل الرحمن کے پاس گئے، مگر افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کسی اور اسکرپٹ پر کام کر رہا تھا جو 9مئی کے واقعات کی صورت میں سامنے آئے۔ ان واقعات نے بلاول بھٹو زرداری کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ سوال یہ ہے کہ 9مئی کو جی ایچ کیو، جناح ہائوس، فوج کی حساس تنصیبات پر حملوں اور ارض وطن پر اپنی جانیں قربان کرنے والوں کی توہین کے بعد بلاول بھٹو زرداری کے پاس مذاکرات کیلئے کیا دلیل باقی رہی تھی۔؟ اگر آج پی ٹی آئی ٹوٹ رہی ہے تو اس آسمانی اصول کو ماننا چاہئے کہ ہر چیز کا اصلیت پر آنا قدرت کا قانون ہے۔ یہ تو طے ہے کہ 9مئی میں ملوث مجرموں کا ٹرائل ہوگا مگر میرا سوال یہ ہے کہ قوم کی دو نسلوں کو گمراہ کرنے کےمجرموں کے ساتھ کیا سلوک ہوگا، قوم اس کا بھی حساب مانگ رہی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ عمران نیازی کی دشنام طرازی اور تہمتوں سے کوئی محفوظ رہا ؟حقیقت یہ ہے کہ عمران نیازی کے پاس کارکردگی کے نام پر کچھ نہ تھا۔ اس نے تین وزیر خزانہ تبدیل کئے ہر وزیر خزانہ نے جو تباہی مچائی اسکے اثرات سے ہم ابھی تک باہر نہیں نکل پائے۔ عمران نے ملک کے خارجہ امور کا بھی ستیاناس کیا! شرمناک بات یہ تھی کہ موصوف امریکہ کے دورے پر گئے تو سفارتی استثناکے ساتھ گئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی بھی ان کی طرح سفارتی استثناکی پناہ میں امریکہ گئے تھے۔ عمران نیازی کی کچھ حرکتوں کی وجہ سے پاکستان کے قریبی دوست ممالک نے بھی منہ موڑ لیا۔ ملک کے موجودہ نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کے خارجہ امورمیں نئی جان ڈالی، دنیا ان کی انتھک محنت کے نتیجے میں پاکستان کے بیانیہ پر اعتبار کرنے لگی۔ خارجہ امور بہتر ہوئے۔ بلاول بھٹو زرداری کی بھارت میں شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس میں شرکت کے بعد وہاں کے میڈیا کو دیئے جانے والے انٹرویوز بھارتی انتہا پسند وزیر اعظم مودی کو زور دار طمانچے کی طرح رسید ہوئے۔تعجب کی بات یہ ہے کہ بھارت کی سر زمین پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے تکلیف تو مودی کے انتہا پسند حامیوں کو دی مگر چیخیں یہاں عمران نیازی کی نکل رہی تھیں! پھر کیا ہوا کہ 9مئی کو ہونے والے واقعات نے مودی اور ان کے حامیوں کو لاحق تکلیف کی شدت میں کمی کی اور ان خبروں پر جشن مناتے نظر آئے۔غور طلب پہلو یہ ہے کہ عمران کی لڑائی دیگر سیاسی رہنمائوں سے تو سمجھ آتی ہے مگر قوم کے ان بہادرہیروز سے کیا پرخاش تھی جنہوں نے وطن کی دھرتی کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی تھیں؟ ان کی بے حرمتی اور بے ادبی کا مطلب بھارتیوں اور دیگر مہربانوں کو خوش کرنیکی کوشش نہیں تھی تو اسے کیا نام دیا جائے ؟ کوئی مانے یا نہ مانے، حقیقت یہ ہے کہ 9مئی کے واقعات سے عمران نیازی کی سازشی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ پاکستان کو ختم کرنے کے ناپاک خواب تو قائد ِعوام کے قاتلوں نے بھی دیکھا تھا مگر انکے اس ناپاک پلان کو محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے خاک میں ملا دیا۔ اسی طرح محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے قاتلوں نے بھی یہ ہی سمجھا تھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کو قتل کرکے وہ وفاق کی زنجیر توڑ رہے ہیں مگر صدر آصف علی زرداری نے پاکستان کے دشمنوں کے گھناؤنے عزائم خاک میں ملا دیئے۔ بھٹو شہید کے پاکستان کی حفاظت کیلئے بھٹو شہید کا نواسہ اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا بیٹا اب وفاق کی زنجیر ہے۔ جس کا بیانیہ ہے کہ’ ’جمہوریت بہترین انتقام ہے۔‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)