• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ان دیکھے رومانس کا شاعر ’’خمار بارہ بنکوی‘‘

80 کی دہائی میں خمار بارہ بنکوی کو جب پہلی مرتبہ سنا تو سنتا ہی رہ گیا ۔ ایک تقریب میں راجندر سنگھ بیدی نے خمار بارہ بنکوی کے تخلص کے حوالے سے کہا تھا کہ، آپ کا تخلص سرور ہونا چاہیئے۔ سرور چڑھتے اور خمار اترتے نشے کو کہتے ہیں۔ سننے والوں میں شاعری کا نشہ اترتا نہیں بلکہ چڑھتا ہے،یہ سن کرخمار صاحب مسکرا کر رہ گئے تھے۔

خمار بارہ بنکوی کا اصل نام محمد حیدر خاں تھا ۔ پیارسے انہیں دُلن کہتے تھے۔ وہ 1919میں پیدا ہوئے۔ جگر مراد اسکول آف پوئٹری کے نمائندہ شاعر تھے اور میرا خیال ہے کہ آخری بھی تھے ۔ تہذیب میں رچے بسے ، شیروانی پائجامہ میں ملبوس، نظر کا موٹا چشمہ ، بال کسی قدر بے ترتیب،حلیے سے ہی مجسم شاعر تھے۔ ترنم ایسا کہ ہر شعر کو مہمیز دے اور ہم جیسے اس پر فریفتہ ہو جائیں ۔ 1938میں بریلی میں اپنا پہلا مشاعرہ پڑھا۔ پہلا شعر ہی مستقبل کی اس آبروئے غزل کا پتہ دے رہا تھا۔

واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے

اس راز کو پوچھو کسی برباد نظر سے

خمار بارہ بنکوی کو جب جب سنا یہی لگا کہ میں ان کا ہم عمر ہوں ، وہ جس سے عشق کرتے ہیں ، ایسا ہی کوئی عشق مجھے بھی ہے۔ ان کے خیالات کے ساتھ پلا بڑھا۔ وہ رومانس کے شکایتی شاعر نہ تھے،اس کے ہجر میں بھی وصل کی شعری لذتیں محسوس کرتے تھے۔ ان کو روبرو تو کم سنا لیکن مشاعروں کی ویڈیوز میں زیادہ دیکھا اور سنا۔ یہ 90 کی دھائی کے ابتدائی سال تھے۔ ہماری ملاقات دفتری زندگی میں عباس ظفر کاظمی سے ہوئی۔ پتہ چلا کہ وہ خود بھی ادبی ذوق کے حامل ہیں اور ان کے والد جو کہ سعودی عرب میں مقیم تھے ، مشاعروں کی ویڈیوز کا بہت اچھا کلیکشن رکھتے تھے۔

ہمیں سادات امروہہ کے مشاعروں کے بعد شعر بہ زبان شاعر سننے کا چسکا لگ چکا تھا۔ عباس نے ہمیں وی سی آر کے کیسٹس دینا شروع کر دیئے جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ ان کیسٹس میں خمار بارہ بنکوی کو سنا تو لگا کہ کوئی ہم عمر دوست مل گیا۔ ایک عرصے تک ان کے اشعار ذہن میں رہے جو آج بھی اسی طرح تازہ ہیں، جنہیں میں اکیلے میں گنگناتا ہوں، بہ قول شخصے آپ کے گنگنانے پر بھن بھنانے کا گماں ہوتا ہے۔ ابتدائی ملاقات کے وہ اشعار جو خمار صاحب نے دبئی میں پڑھے تھے ۔ ملاحظہ کریں:

دو گنہ گار زہر کھا بیٹھے ۔ہم انہیں وہ ہمیں بھلا بیٹھے

آندھیوں جاؤ اب کرو آرام۔ ہم خود اپنا دیا بجھا بیٹھے

بے سہاروں کا حوصلہ ہی کیا ۔ گھر میں گھبرائے در پہ آ بیٹھے

……٭٭……٭٭……

اس کے بعد وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں

جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں

سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں

تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں

ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی

وہ پتھر میرے گھر میں آنے لگے ہیں

یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو

یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں

اس کے بعد تو خمار کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا تھا ۔ان کی خاص بات،ہر مصرعے پر آداب کہنا ہوتا تھا ۔ غزل شروع کرنے سے پہلے ہلکا سا کھنکھارتے اور گنگناتے ۔ مصرعہ اولی ادا کرنے کے بعد یا پہلے پیچھے بیٹھے شعراء کی طرف دیکھتے ۔وہ داد و تحسین کے خواہاں نہ تھے ۔ ان کی داد تو یہ تھی وہ شعرکہتے اور خود ہی اس کا مزا لیتےتھے ۔ دراصل ان کی شاعری اور ترنم آپ کو اس ماحول میں لے جاتے جیسے آپ اپنی محبوبہ سے بات کر رہے ہوں اور یہ نہ چاہتے ہوں کہ اس بیچ کوئی آئے۔ 

خمار صاحب مشاعرہ نہیں لوٹتے تھے ، دل لوٹ لیتے تھے ۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت کے نوجوانوں کی کوئی حقیقی محبوبہ ہو کہ نہ ہو، مگر خمار صاحب نے ان کے تصور میں ایک محبوبہ بٹھا دی تھی ،جس سے وہ ان کے اشعار کی صورت میں بات چیت کر سکتے تھے ۔

ان کی غزلوں کا جادو اتنا سر چڑھ کر بول رہا تھاکہ،1942 میں مشہور ڈائریکٹر اے آر اختر کی دعوت پربمبئی چلے گئے ،جہاں مختلف فلموں کے لیے شہرہ آفاق گیت تخلیق کیے، جن میں ۔چند ایک یہ ہیں :

محبت کی بس اتنی داستان ہے …… محمد رفیع ۔ لتا

تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی …… طلعت محمود

بھلا نہیں دینا جی بھلا نہیں دینا …… محمد رفیع ۔ لتا

اے دل برقرار جھوم …… سہگل

یہ نادانوں کی دنیا ہے …… محمد رفیع

درد بھرا دل بھر بھر آئے …… لتا

……دو قطعات اور شعر نذرِ قارئین ہیں……

آنکھوں کے چراغوں میں آجائے نہ رہیں گے

آ جاو کہ پھر دیکھنے والے نہ رہیں گے

جا شوق سے لیکن پلٹ آنے کے لیے جا

ہم دیر تک خود کو سنبھالے نہ ملیں گے

……٭٭……٭٭……

مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آگیا

تم کیوں اداس ہو گئے کیا یاد آگیا

مانگیں گے اب دعا کہ اسے بھول جائیں ہم

لیکن جو وہ بوقت دعا یاد آگیا

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔

خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔

ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی