• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس وقت دنیا کی قدیم ترین گندھارا تہذیب کے گہوارے اور بدھ مت کے سب سے اہم مرکز تخت باہی کے کھنڈرات میں موجود ہوں جو ایک طویل عرصے تک لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہے،وزیراعظم ٹاسک فورس برائے گندھارا سیاحت کے زیراہتمام معلوماتی دورے کا مقصد گندھارا تہذیب کے مقدس تاریخی مقامات کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ہے،میرے ہمراہ انڈونیشیا،، تھائی لینڈ اور نیپال کے سفراء کرام،چین کے پاکستان میں مقیم اسٹوڈنٹس، سول سوسائٹی،فارنرز اور میڈیا کے دوست بھی موجود ہیں، ان کی موجودگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مستقبل قریب میں گندھارا سیاحت کا فروغ عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرنے کا باعث بنے گا۔میرے ساتھ موجود ڈیپارٹمنٹ آف آرکیالوجی اینڈ میوزیم کے حکام کا کہنا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے شہرمردان کے تاریخی مقام تخت باہی کالگ بھگ تین ہزار سالہ قدیم علاقہ گندھارا دور میں نمایاں مقام رکھتا تھا، تخت باہی کے کھنڈرات آج بھی دنیا بھر میں دریافت ہونے والے آثارقدیمہ میں سب سے بہتر حالت میں موجود ہیں، اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے 1980ء میں تخت باہی کے قدیم علاقے کو عالمی ورثہ قرار دیتے ہوئے اسکے تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔تخت باہی کے نام کے حوالے سے متفرق رائے پائی جاتی ہے، کچھ کا کہنا ہے کہ سنسکرت زبان میں تخت کا مطلب کنواں ہے اور باہی بلندی کو کہتے ہیں،اس قدیمی علاقہ میں مغرب کی جانب پہاڑ کی چوٹی پر دو کنویں موجود ہیں جن کی وجہ سے اس جگہ کا نام تخت باہی پڑ گیا،اسی طرح کچھ لوگ لفظ تخت کو فارسی زبان سے منسوب سمجھتے ہیں، وہ یہاں چشمے کی موجودگی اور پانی کے بہاؤ کو علاقے کا نام پڑنے کا سبب بتاتے ہیں۔ ہمارے قافلے نے اسلام آباد موٹروے سے پشاور کی جانب سفرکرتے ہوئے رشکئی انٹرچینج پر مردان کی جانب رْخ کیاتومردان سے کوئی آدھ گھنٹے کی مسافت پرمالاکنڈ، سوات کی طرف تخت باہی کا قدیم علاقہ آگیا،راستے میں ہمیں تخت باہی کے آثارِ قدیمہ کے حوالے سے آگاہی بورڈ بھی نظر آئے، وہاں پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ ہمیں تقریباََدوسوکے قریب سیڑھیاں چڑھ کربلندی پر اوپر جانا پڑے گا۔ تخت باہی کی قدیم عمارت کالے پتھروں کے بلاکس سے تعمیر کی گئی ہیں، جن کو چونے اور مٹی کے گارے سے جوڑا گیا ہے،جب ہم اوپر گئے تو ہمیں ہزاروں سال قدیم عمارت نظر آئی، جس کے ایک طرف صحن تھا اوراسٹوپے موجود تھے، مختلف راہداریاں بنی ہوئی تھیں اور کھلے میدان میں چبوترے بنے ہوئے تھے، اگلی منزل پر ہر طرف کمرے اور حجرے بنے ہوئے ہیں،کچھ کمروں کی چھتیں بھی ہیں، کمرے ہوا دار کرنے کیلئے روشن دان بھی موجود تھے اور کچھ کمروں، حجروں کی دیواروں میں دیئے رکھنے کے لئے جگہ بنی ہوئی ہے۔یہاں پہنچ کر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہم زمانہ قدیم کی کسی یونیورسٹی میں پہنچ گئے ہیں،اس حوالے سے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ آج سے ہزاروں سال قبل گندھارا تہذیب کے زمانے میں تخت باہی تعلیم و تربیت کا ایک اہم گہوارہ تھااور یہاں چین، کوریا، جاپان سمیت دنیا بھر سے طالب علم آیا کرتے تھے، بہت سے قدیم سیاحوں نے بھی اپنے سفرناموں میں تخت باہی کا تذکرہ کیا ہے، اس حوالے سے تاریخ خاموش ہے کہ اپنے زمانے کی عظیم الشان گندھارا تہذیب کا یہ قدیمی علاقے ایک طویل عرصے تک لوگوں کی نظروں سے کیسے اوجھل رہا، تاہم تاریخی طور پر برصغیر میں انگریزکی آمد کے بعد 1833ء میں کچھ مزدوروں کویہاں کھدائی کرتے ہوئے قدیمی سکے اور مورتیاں دریافت ہوئیں، کہا جاتا ہے کہ تخت باہی میں پوشیدہ آثار قدیمہ کا سراغ سب سے پہلے ایک فرانسیسی جنرل کورٹ نے لگایاتھا جو پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں افسر تھے،سر جان مارشل نے گندھارا زمانے کے پوشیدہ ورثے کو منظرعام پر لانے کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں، انگریز دور میں مسلسل کوششوں کے باعث 1927 میں تخت باہی کے آثارِ قدیمہ کے بارے میں واضح طور پر معلومات سامنے آئیں۔ میرے ہمراہ موجود سفارتکار اس امر پر اظہارِ مسرت کررہے تھے کہ انہیں گندھارا زمانے کے اس مقدس مقام کے دورے کا موقع ملا ہے جس کا دورہ کرنا سب کی خواہش ہے، پاکستان اس لحاظ سے نہایت خوش قسمت ہے کہ اسے قدرت نے تاریخی مقدس ورثے کی صورت میں انمول خزانے سے نوازا ہے، میرے خیال میں پاکستان میں گندھارا سیاحت کا فروغ وقت کا تقاضا ہے جس پر توجہ دینے سے ہم نہ صرف پاکستان کوبھاری قرضوں سے نکال سکتے ہیں بلکہ سفارتکاری کے میدان میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین