• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعمیر شدہ مسجد کی پہلی چھت کے درمیان کٹاؤ کا مسئلہ

تفہیم المسائل

سوال: جامع مسجد اقصیٰ اورنگی ٹاؤن کی دوسری چھت ڈالی گئی، اب ہم پہلی چھت کو درمیان سے Uکی شکل میں کاٹ کر بالکونی بنانا چاہتے ہیں، تا کہ زمین سے دوسری چھت اور اس پر موجود گنبد واضح ہوجائے ، کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے ؟ (نورالھُدیٰ، کراچی)

جواب: ہمارے قدیم فقہائے کرام کی عبارات اس پر مبنی ہیں کہ قُرونِ اُولیٰ ووسطیٰ میں بالعموم افراد مسجد کے لیے اپنی ملکیتی زمین وقف کرتے تھے اور بعض صورتوں میں تعمیر بھی خود کرتے تھے اور اس کو چلانے کے لیے وقف بھی قائم کرتے تھے۔

آج کل خاص طور پر بڑے شہروں میں اہلِ محلہ میں سے چند افراد مل کر انجمن یا ٹرسٹ بناتے ہیں اور پھر عام چندے سے یہ کام کرتے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ انجمن یاٹرسٹ کے ذمے داران بدلتے رہتے ہیں، اگر ضرورت محسوس کریں اور مالِ وقف کے علاوہ دیگر وسائل یا اپنی جیب سے مسجد کے کسی حصے میں تغیروتبدّل یا انہدام و تعمیرِ نویا توسیع و تزئین کرنا چاہیں، تو انھیں یہ حق حاصل ہے ، لیکن مالِ وقف سے اس مقصد کے لیے صرف نہیں کرسکتے ،علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ فقہائے کرام نے صراحت فرمائی ہے کہ وقف کرنے والوں کے مقصد(ومصرف)کی رعایت کرنا واجب ہے،(حاشیہ ابن عابدین شامی،جلد4،ص:445)‘‘۔

آپ بھی اس طرح کی کوئی تبدیلی کرنے سے پہلے اس امر کو یقینی بنالیں کہ آپ کے بعد اس میں مزید کوئی تبدیلی تو نہیں کی جائے گی، کیونکہ مساجد کی انتظامیہ کو یہ امرملحوظ رکھنا چاہیے کہ تعمیر کے وقت اچھی طرح غور وفکر کریں ، ماہرین سے رابطہ کریں، نقشہ اور مکمل ڈیزائن پلان کریں اور باہمی مشاورت سے تعمیر کے مراحل کو تکمیل تک پہنچائیں، بغیر سوچے سمجھے حادثاتی یا اتفاقی طور پر مسجد میں مُتفرق تعمیری کام اپنی مرضی سے کرانا، بعد میں اُسے منہدم کرنا یا اُس میں تبدیلی کرنا مال کا ضیاع ہے اور مہنگائی کے اس دور میں مسلمانوں پر اضافی عطیات کا بوجھ ڈالنا کس لیے ؟، علامہ کمال الدین اب ہمام لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ بے شک وقف کو کسی زیادتی کے بغیر سابق حال پر قائم رکھنا واجب ہے ،(فتح القدیر ، جلد6، ص:228)‘‘۔