• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے بے حد شریف النفس، بہت محنتی و مشقتی ابو

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

بلاشبہ، دنیا میں باپ ہی ایک ایسی ہستی ہے، جو زینہ بن کر اولاد کو بلندی تک لے جاتی ہے۔ اور اس کے لیے ساری عمر سخت محنت مشقّت اور جہدِ مسلسل کرکے بھی کسی صلے کی طالب نہیں ہوتی۔ 21جون 2008ءکو ہماری زندگی کے مرکز و محور، ہمارے رہنما، پیارے ابّو جان کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد احساس ہوا کہ ہم کتنی عظیم نعمت سے محروم ہوگئے ہیں۔ میرے والد کا نام محمد حسین تھا، لیکن وہ ’’چوہدری صاحب‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ واہ فیکٹری میں ابّو کو سرکاری ملازمت ملی، تو جلد ہی سرکاری گھر بھی مل گیا۔ جس کے بعد وہ امّی کو بھی فیصل آباد سے واہ کینٹ لے گئے۔ پھر ہمارے ابّو، امّی کے گلشن میں چھے پھول کِھلے، یعنی چار بیٹیاں اور دو بیٹے۔ 

شروع شروع میں تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن جوں جوں ہم بہن، بھائیوں کی تعدادمیں اضافہ ہوتاگیا، سرکاری نوکری اور قلیل تن خواہ میں گھر چلانا مشکل ہوگیا، تعلیمی اخراجات بھی بڑھ گئے، تو اِن حالات کے پیشِ نظر ابّو نے ملازمت کے ساتھ ایک کریانے کی دکان بھی کھول کر ہمارے بہترمستقبل کی خاطر اپنا سب آرام و سکون تج دیا۔ وہ صبح آفس جاتے، واپس آکر روٹی کا آخری لقمہ گلے سے اُتارتے اور فوراً دکان کی چابیاں اٹھا کر چلے جاتے۔ ایک گھنٹہ بھی آرام نہیں کرتے اور پھر رات گئے دکان سے واپس آتے۔

دن رات محنت و مشقّت میں لگے رہنے والے ہمارے ابّو انتہائی شریف النفس اور بھرپور عزم حوصلے کے مالک تھے۔ محنت تو اُن کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ وقت کا پنچھی بڑے سکون سے اُڑتا جا رہا تھا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ابّو نے ہم دونوں بہنوں کی شادی اکٹھے کردی۔ میری تیسرے نمبر کی بہن، مقامی اسکول میں بحیثیت ٹیچر ملازم ہوگئی۔ اس کے بعد ابّو نے چھوٹے سے بڑے بھائی کی بھی شادی کردی۔ پھر چار سال بعد دونوں چھوٹی بہنوں کی بھی شادی ایک ساتھ ہوگئی۔ وہ دونوں بھی شعبۂ تدریس سے منسلک تھیں۔ اب سب اپنا اپنا بوجھ خود اٹھارہے تھے، صرف چھوٹا بھائی زیرِتعلیم تھا۔ ایک سال بعد ابّو ریٹائر ہوگئے، تو ریٹائرمنٹ کے بعد ہم سب نے انہیں دکان چھوڑکر آرام کا مشورہ دیا۔

تھوڑی پس و پیش کے بعد ابّوراضی ہوگئے اور سرکاری گھر چھوڑ کر اپنے ذاتی مکان لالہ رُخ میں شفٹ ہوگئے۔ چھوٹے بھائی نے ایف ایس سی کے بعد مزید تعلیم کے لیے ترکی جانے کی خواہش ظاہر کی، تو ابّو نے ریٹائرمنٹ کا سارا پیسا بیٹے کی روانگی اور تعلیم پر لگادیا۔ بھائی نے بھی بہت محنت کی اور انجینئرنگ کی اعلیٰ ڈگری لے کر واپس پاکستان آیا، تو اسے اسلام آباد میں اچھی ملازمت مل گئی۔ پھر کچھ عرصے بعد اس کا گھر بھی بسا کر ابّو تمام بچّوں کے فرض سے سبک دوش ہوگئے۔

ابّو نے اپنے سب بچّوں کی خوشیاں دیکھ لی تھیں، تو ہر دَم اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں نیک، فرماں بردار اور خدمت گزار اولاد سے نوازا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم نے بھی کبھی اپنے والدین کا مان نہیں توڑا۔ ہماری طرف سے ان کا کلیجہ ٹھنڈا رہا۔ بہرحال، 20جون2008ء کو اچانک ابّو کو دل کا دورہ پڑا، جو جان لیوا ثابت ہوا اور اس طرح 21جون کو وہ ہم سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے اور تب ہمیں یوں محسوس ہوا، جیسے سر سے گھنا سایا ہٹ گیا ہو۔ 

ابّو ہم سب بہن بھائیوں سے بہت محبّت کرتے تھے اور ہمیں بھی ان سے بے حد محبت تھی، شاید اسی لیے آج پندرہ برس گزرنے کے باوجود ان کی جدائی کا زخم بالکل تازہ ہے۔ ابّو کا ذکر آئے، تو آنکھیں بے اختیار نم ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ابّو کو جنّتیوں میں شامل کرے اور ان کی لحد پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرما کر اپنے کرم سے ان کے درجات بلند فرمادے۔ (آمین) (شگفتہ بانو، لالہ زار، واہ کینٹ)