ایرانی انقلاب کے سالارامام خمینی کی گزشتہ روز برسی منائی گئی، آئیے عمران خان تک آنے سے قبل یادگار تاریخ کی کچھ ورق گردانی کرتے ہیں، ایران کا آخری شاہی خاندان جس کی حکومت کا آغاز 1925ء میں رضا شاہ پہلوی کی تخت نشینی کے ساتھ تھا ہوا اُس کا خاتمہ 1979ء کے امام خمینی کے عظیم ایرانی انقلاب کے ساتھ ہوا اور اس طرح ایران میں ملوکیت کی قدیم روایت کا خاتمہ ہوا۔ رضا خان جو بعد ازاں رضا شاہ پہلوی معروف ہوا، ایران کی فوج میں ایک افسر تھا۔ 1925ء میں قاچار خاندان کے آخری فرمانروا احمد شاہ قاچارمعزول بادشاہ بن گئے۔ محمد رضا شاہ پہلوی، پہلوی خاندان کے پہلے سربراہ تھے۔ ان کے 16سالہ دور اقتدار 1925سے1941تک میں، ایران ایک ترقی یافتہ ملک بنا۔ 1930ء کی دہائی میں مگر رضا شاہ کے آمرانہ طرز حکومت نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں شدید بے چینی پیدا کر دی۔ جون 1941ء میں جرمنی کی سوویت یونین میں مداخلت کے بعد برطانیہ اور سوویت روس اتحادی بن گئے۔ جرمن شہریوں کو ملک بدر کرنے سے انکار پر اگست 1941ء میں برطانیہ اور روس نے ایران پر چڑھائی کر دی اور رضا شاہ کو گرفتار کر کے ملک بدر کر اور رضا شاہ کے صاحبزادے محمد رضا پہلوی کو تخت پر فائز کر دیا۔ جنوری 1942ء میں اُس وقت ایران کی غیر جانبداری کو دھچکا لگا، جب ایران امریکا کی گود میں جا بیٹھا جس پر روس کی مدد سے ایران میں خود مختاری کی تحریکیں تیار کی گئیں... علاقائی بے چینی اور سرد جنگ کے تناظر میں شاہ نے خود کو مغرب کا اہم اتحادی ثابت کیا، صرف دو دہائیوں میں ایران مشرقِ وسطی ٰ کی بڑی اقتصادی و فوجی قوت بن گیا۔ شاہ خود کو ایران کے قدیم شہنشاہوں کا جانشیں سمجھتے تھے اور 1971ء میں انہوں نے فارسی شہنشاہیت کے ڈھائی ہزار سال کی تکمیل پر جشن کا اہتمام کیا۔مغربی اتحاد کے نتیجے میں انکے خلاف مذہبی رہنماؤں کی مخالفت میں مزید شدت ا ٓگئی۔ دیگر نظریات کے حامل افراد بھی امریکی سامراج کے اس آلہ کار کیخلاف جدوجہد کو ہوا دینے لگے۔ شاہ کی حکومت اپنے خفیہ جاسوسی کے ادارے ساواک کے ذریعے مخالفین کو بے دردی سے کچلنے لگی۔ ان مخالفین میں مذہبی طبقات کے علاوہ اشتراکی نظریات کی حامل تودہ پارٹی بھی شامل تھی۔ جلا وطن راہ نما آیت اللہ خمینی نے شاہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کا اعلان کیا جسے اسلامی انقلاب کا نام دیا گیا۔ بنابریں 1978ء اور 1979ء میں بڑے پیمانے پر عوامی مظاہروں میں دیگر نظریات کے حاملین بھی شامل تھے، جس کے بعد شاہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ شاہ ملک سے فرار ہو گئے، امریکہ سمیت دنیا کے کسی سامراجی حکومت نے اُن کا ساتھ نہ دیا اور وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ امام خمینی کی تحریک نے جہاں ڈھائی ہزار سال قدیم شہنشائیت کا خاتمہ کیا وہاں شاہ کے دور میں غریب عوام کو بہ زور لوٹنے والوں کا بے لاگ و غیر جانبدار احتساب بھی کیا۔ ہمارا عنوان ہے’’امام خمینی سے عمران خان تک‘‘۔ مغرب نواز، ڈکٹیٹروں کے ہم پیالہ عمران خان کسی بھی طور سامراج دشمن حضرت امام خمینی سے موازنے کے اہل نہیں، یہاں صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ جہاں امام خمینی نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور بے لوث جذبے سے جبل نما بت پاش پاش کئے تو پاکستان میں کاسہ لیسی کی بدولت ایک بڑی عوامی قوت کی حمایت کے باوجود جہاں عمران خان پاکستان میں کوئی انقلاب نہ لا سکے وہاں وہ سیاسی تہذیب وروایت کو پامال و مجروح کرنے کا باعث بھی بنے۔ اتنی مقبولیت بھٹو کو بھی حاصل نہیں تھی جتنی عمران خان کو ملی، بھٹو کے مقابلے میں شیخ مجیب الرحمان زیادہ مقبول تھے، 1970کے انتخابات میںتین سو کی اسمبلی میں پی پی نے 82اور شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے 165نشستیں حاصل کی تھیں۔ عوام نے بت کی طرح عمران خان کی پوجا کی لیکن اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ وہ بھگوان بن گئے، چنانچہ جنہوں نے بنوایا تھا اُنہیں جب خیال آیا کہ ’’میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم ....آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں‘‘، تو پھر ایک دور ابتلا آیا، اور یہی وہ دور ہوتا ہے جب خود کو ثابت کرنا پڑتا ہے، اگر وہ کر پاتے تو وہ بھی امام خمینی کی طرح انقلاب برپا کر سکتے تھے لیکن جس طرح ان کے ساتھی دغا دے گئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان نے اپنی عوامی محبت کو نظریاتی سانچے میں نہیں ڈھالا، چنانچہ انجام سامنے ہے!!