تاریخ میں پہلی بار کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کا میئر منتخب ہو اہے ۔ 1970 ء کے عشرے کے آخر میں فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس شہر میں جس سیاست کو رائج کیا گیا تھا ، اس میں کایا پلٹ ہو گئی ہے لیکن اس سیاست کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا ہے ۔ اب پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور پیپلز پارٹی کے نوجوان میئر مرتضی وہاب کی آزمائش شروع ہو گی کہ وہ کس طرح کراچی کی سیاست کو پیچھے کی جانب واپس جانے سے روکتے ہیں۔
کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کو بلدیاتی انتخابات میں جو مینڈیٹ ملا ہے ، وہ غیر متوقع نہیں تھا1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی قائم ہوئی ۔ اس کے بعد 1970ء میں پاکستان کے پہلے انتخابات منعقد ہوئے ، جو بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر تھے ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کراچی کی اکثریتی جماعت تھی ۔ قومی اسمبلی کی کراچی میں غالباً 7 نشستیں تھیں ، جن میں سے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے دو دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ قومی اسمبلی کی 17 نشستوں میں سے پیپلز پارٹی کو 8 نشستوں پر کامیابی ملی ۔ باقی 9 نشستیں دیگر جماعتوں کی تھیں ۔ 1977 ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے پورے ملک میں قومی اسمبلی کی زیادہ تر نشستوں پر کامیابی حاصل کی تو اپوزیشن نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا ۔ کراچی میں بھی قومی اسمبلی کی زیادہ نشستیں پیپلز پارٹی کے پاس تھیں ۔ اپوزیشن کے بائیکاٹ کی وجہ سے کراچی سے صوبائی اسمبلی کی تقریباً ساری نشستوں پر پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی ۔ 1979ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ۔ پیپلز پارٹی بہت عتاب میں تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی وجہ سے کارکن بہت اداس اور مایوس تھے۔
اس کے باوجود ان بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کراچی کی اکثریتی جماعت بن کر اُبھری ۔ پیپلز پارٹی کے عمر یوسف ڈیڈا آسانی سے میئر بن رہے تھے ۔ فوجی حکومت نے پورا زور لگایا اور تین ووٹوں سے عمر یوسف ڈیڈا کو ہراکر جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کو میئر منتخب کرایا گیا ۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے عمر یوسف ڈیڈا کراچی کے ڈپٹی میئر منتخب ہو گئے ۔ 1983ء میں جب دوبارہ بلدیاتی انتخابات ہوئے تو عبدالستار افغانی دوبارہ میئر منتخب ہوئے اور پیپلز پارٹی کے عبدالخالق اللہ والا ڈپٹی میئر بنے ۔
یہ پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کراچی میں پیپلز پارٹی کا شروع سے ہی ایک بڑا ووٹ بینک موجود ہے ۔ چونکہ کراچی پاکستان کی سیاست اور معیشت کو کنٹرول کرتا تھا ، اس لئے جنرل ضیاء الحق کے دور سے ہی کراچی کی سیاست کو ایک خاص ڈگر پر ڈالا گیا ۔ اسی دوران مہاجر قومی موومنٹ یا موجودہ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم )وجود میں آئی ۔ اس نے بوجودہ کراچی کی سیاست کو اپنے کنٹرول میں کر لیا ۔ وہ 1980 سے2010ءتک کراچی کی سیاست پر چھائی رہی ۔ ایم کیو ایم کے آنے کے بعد پیپلز پارٹی کراچی کی اکثریتی جماعت نہ رہی لیکن تمام عام اور بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر ہی ۔ 2001ء کے بلدیاتی انتخابات میں جب ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا تو پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کراچی میں مقابلہ ہوا ۔ اگر دوسری جماعتوں کے ووٹ پیپلز پارٹی کے میئر کے امیدوار کو مل جاتے تو جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان ناظم کراچی نہ بنتے بلکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار تاج حیدر کامیاب ہو جاتے2023ء کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی اگر کراچی سے اکثریتی جماعت بن کر ابھری ہے تو یہ حیرت انگیز نہیں ہے۔
کراچی کے نئے میئر مرتضی وہاب کیلئے بڑے چیلنجز ہیں ۔ مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی سوا دو کروڑ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی آبادی کہیں زیادہ ہے ۔ کراچی کے مسائل اب اس قدر بڑھ گئےہیں کہ یہ شہر قابل انتظام نہیں رہا ۔ کراچی 1970 ء کے عشرے تک جنوبی ایشیاء کا فی کس آمدنی کے حوالے سے امیر ترین شہر تھا ۔ کراچی اس خطے کا تجارتی حب تھا ۔ کراچی کا ایئرپورٹ اور اس کی بندرگاہ خطے میں سب سے زیادہ مصروف تھے ۔ کراچی اپنی خوبصورتی کے حوالے سے دنیا کے انتہائی پسندیدہ شہروں میں شامل تھا ۔ اب کراچی نہ صرف مسائلستان بنا ہوا ہے بلکہ اپنا جاہ و جلال بھی کھو چکا ہے ۔ کراچی کے شہری مسائل بہت پیچیدہ ہیں ۔ یہ اب کچی آبادیوں کا شہر بن چکا ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ ان آبادیوں کو ریگولیٹ کرنے کا ہے ، جہاں نہ کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ کوئی بلڈنگ کنٹرول ہے ۔ کراچی کے ریگولر اور پوش علاقے بھی گنجان آبادیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔ بلڈنگ کنٹرول اور منصوبہ بندی کے سارے نظام تہس نہس ہو چکے ہیں۔بلدیہ عظمی کراچی کے کنٹرول والے علاقوں میں بلڈنگ کنٹرول ختم ہو گیا ہے، لوگ اپنی مرضی سے کثیر منزلہ عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں ۔ سیوریج، سڑکیں اور دیگر انفرا سٹرکچر بے قابو تعمیرات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے ۔ کراچی کا دوسرا بڑا مسئلہ پانی کا ہے ۔ ڈیفنس جیسا پوش ایریا پانی سے محروم ہے ۔ یہاں لوگ پانی کے ٹینکر خرید سکتے ہیں لیکن شہر کی گنجان آباد غریب آبادیاں پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں اور وہاں کے باشندے پانی خرید بھی نہیں سکتے ۔ شہر میں ایک اور بڑا مسئلہ گندگی کا ہے ۔ گندگی کراچی کی پہچان بن چکی ہے ۔ اگرچہ سندھ حکومت نے پبلک ٹرانسپورٹ کے کئی منصوبوں پر کام کیا ہے لیکن انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک جام نے کراچی کے شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے ۔ کراچی کے اور بھی بہت سے مسائل ہیں ۔ کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب سے بہت زیادہ توقعات کی جا رہی ہیں ۔ بطور ایڈمنسٹریٹر انہیں کراچی کے مسائل کا بہت ادراک ہو چکا ہو گا ۔ انہیں کراچی کی بلا امتیاز خدمت کرنا ہو گی بلکہ پیپلز پا رٹی کواپنا یہ نعرہ بھی اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا کہ کراچی سب کا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)