کراچی والے بہت بدقسمت ہیں ،انہوں نے اپنے شہر کو استنبول بنانے کا موقع پھر سے ضائع کر دیا۔مجھے یاد ہے ،سراج الحق جنہیں مارچ 2013ء میںسید منور حسن پر ترجیح دے کر جماعت اسلامی کا امیر منتخب کروایا گیا تھا ،انہوں نے 2015ء کے بلدیاتی انتخابات کے موقع پر وعدہ کیا تھا کہ اگر عوام نے انہیں موقع دیا تو کراچی کو استنبول بنادیں گے۔لیکن پسماندگی کا گلہ کرنے والے ساکنانِ شہر نے اس وعدے کو سنجیدگی سے نہ لیااورایم کیو ایم کے وسیم اختر کراچی کے میئر منتخب ہوگئے ۔اس مرتبہ میئر کراچی کے انتخاب سے چند روز قبل ’’تحفظ کراچی مارچ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ایک بار پھر اپنی پیشکش دہرائی کہ حافظ نعیم الرحمان میئر ہوں گے اور ہم کراچی کو استنبول بنادیں گے۔لیکن افسوس صد افسوس ،چونکہ ہم موقع ضائع کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ،اس لئے کراچی کو استنبول بنانے کی پیشکش سے فائدہ نہ اُٹھا پائے۔اس بار پیپلز پارٹی رکاوٹ بن گئی اوربلاول بھٹو زرداری کے الفاظ مستعار لوں تو مرتضیٰ وہاب میئر کراچی ’’سلیکٹ ‘‘ہوگئے۔بالعموم جماعت اسلامی کے وابستگان شکست کے جان لیوا غم سے نجات پانے کیلئے ’’اخلاقی فتح‘‘کا جام نوش کرلیتے ہیں یا پھر یہ سوچ کر دل گرفتہ نہیں ہوتے کہ ہم تو یہ سب اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے کر رہے ہیں ،ہمیں ہار یا جیت سے کوئی غرض نہیں۔لیکن اس بار گھائو اتناگہرا ہے کہ کوئی تسلی ،کسی قسم کی تشفی کام نہیں آرہی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کراچی کو استنبول بنانے کے خواب کا ایک تاریخی پس منظر اور علامتی اہمیت ہے۔
ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوان کی میدان سیاست میں اُٹھان کا آغازاستنبول سے ہوا تھا۔وہ 1990ء میں استنبول کے میئر بنے اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان بھی کراچی کو استنبول بنا کر آگے بڑھنا چاہتے تھے مگر ان کی پیشقدمی روک دی گئی۔پیپلز پارٹی کی دھونس دھاندلی اپنی جگہ مگر سچ یہ ہے کہ کچھ باغباں بھی برق و شرر سے ملے ہوئے تھے اور وہ نہیں چاہتے کہ حافظ نعیم الرحمان کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہو۔
میئر کراچی کے انتخاب کا اونٹ کس کروٹ بٹھایا گیا ،کیا یہ اونٹ خیمے میں گھس کر اطمینان سے بیٹھ گیا ہے یا پھر اب بھی اسے کروٹ بدلنے پر مجبورکیا جا سکتا ہے؟اس پر اجمالی ،اشتعالی ،جلالی اور لااوبالی تبصروں کا جائزہ بعد میں لیں گے ،پہلے ہم یہ گتھی سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ استنبول ماڈل ہے کیا اور جو کام عبدالستار افغانی یا نعمت اللہ خان نہیں کرسکے وہ حافظ نعیم الرحمان صاحب کیسے سرانجام دے پاتے؟حافظ نعیم الرحمان 53برس کے ہوچکے ہیں جبکہ طیب اردوان 1994ء میں استنبول کے میئر بنے تو ان کی عمر 40سال تھی۔اسلامی تحریک سے وابستہ کوئی شخص اس عمر میں جتنا جذباتی ہوسکتا ہے ،طیب اردوان بھی اتنے ہی جوشیلے اور توانا تھے ۔مگر انہوں نے بل بورڈز سے خواتین کی تصاویر پر سیاہی پھیرنے یا اس طرز کے دیگر نمائشی اقدامات کرنے کے بجائے ترقی اور خوشحالی کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا ۔پانی کی قلت ،آلودگی اور بے ہنگم ٹریفک کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دی۔کچراٹھکانے لگانےکیلئےبہترین نظام متعارف کروایا۔استنبول میٹروپولیٹن میونسپلیٹی جو قرضوں میں گھری ہوئی تھی ،اسے معاشی اعتبار سے اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔اب صورتحال یہ ہے کہ استنبول بلدیہ کے پاس دنیا کے 80ممالک سے زیادہ فنڈز ہیں۔اس کا سالانہ بجٹ 2015ء میں 14ارب ڈالر تھا ،اب شاید اس میں مزید اضافہ ہوچکا ہوگا۔آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ سیاحت کا شعبہ ہے ۔یہاں تاریخی مقامات تو ہیں ہی مگر سیاحوں کی آمد کا سبب آزادی اور تحفظ کا احساس ہے۔آپ چاہیں تو سلیمانیہ مسجد اور نیلی مسجد جاکر اپنی آنکھوں کو خیرہ کریں،دل کرے تو کسی صوفی فیسٹول میں دھمال ڈالنے پہنچ جائیں ۔کسی قسم کی قدغن نہیں ،کسی نوعیت کا جبر نہیں ،کہیں خدائی فوجدار دکھائی نہیں دیں گے ،کوئی آپ کی نجی زندگی میں مخل نہیں ہوگا۔اب جب جماعت اسلامی کراچی کو استنبول بنانے کی بات کرتی ہے تو لوگ سوچتے ہیں یا تو انہوں نے استنبول دیکھا نہیں یا پھر لوگوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں ۔لیکن مجھے حافظ نعیم الرحمان جیسے معتدل مزاج اور معاملہ فہم شخص سے پوری توقع اور اُمید تھی کہ وہ کراچی کوصحیح معنوں میں استنبول بنائیں گے لیکن افسوس یہ خواب اَدھورا رہ گیا۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے 155،جماعت اسلامی نے 130،تحریک انصاف نے 62،مسلم لیگ (ن)نے14جبکہ جے یو آئی (ف)نے 4نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔اب جماعت اسلامی کا مقدمہ یہ ہے کہ اکثریت ہار گئی ،عسکریت جیت گئی کیونکہ انہیں 192ارکان کی حمایت حاصل تھی جبکہ مرتضیٰ وہاب نے 173ووٹ حاصل کئے۔یقیناًکچھ لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا ہوگا لیکن کیا اب دبائو ختم ہوجانے کے بعد مبینہ طور پر غائب ہونے والے ارکان جماعت اسلامی کے ساتھ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گے؟
اگر اپوزیشن بنچوں پر 192ارکان براجمان ہوں گے تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ میئر کو کس طرح ’’سلیکٹ ‘‘کروایا گیا۔الیکشن شیڈول جاری ہونے اور میئر کا الیکٹورل کالج مکمل ہونے کے بعد کس طرح ایک شخص کو فائدہ پہنچانے اور میئر بنوانے کیلئے بلدیاتی قوانین میں ترمیم کی گئی،یہ معاملہ سندھ ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے۔سچ پوچھئے توکراچی کے استنبول نہ بننے کا دکھ اپنی جگہ مگر جب جماعت اسلامی کے کارکنوں کو شیخ مجیب الرحمان کی تعریف کرتے اور یہ کہتے سنتا ہوں کہ شیخ مجیب ٹھیک تھا ،اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ،تو خیال آتا ہے کہ حافظ نعیم الرحمان کی ہار بیکار نہیں گئی ۔اگر الشمس اور البدر کی میراث پر فخر کرنے والے وہ لوگ جنہوں نے شیخ مجیب کو غدار سمجھ کر باقاعدہ ہتھیار اُٹھائے اور پھر بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک چلائی ،وہ تاریخ کو درست تناظر میں دیکھنے لگے ہیں تو یہ ہار بہت ضروری تھی۔