• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئے سال کا سورج طلوع ہو چکا ہے اور شاہراہ دستور کے نواح میں آراستہ ایک عدالت جنرل (ر) پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل6مقدمہ کھولے بیٹھی ہے۔ ہمارے ہاں کی گردش شام و سحر نے ایسا منظر کم ہی دیکھا ہے۔ وطن عزیز کی تاریخ کے 33برس (کم و بیش نصف عرصہ) چار فوجی جرنیلوں کا لقمہ ہو گئے۔ 33؍برس پر محیط جرنیل شاہی کے اثرات شاید پوری قومی تاریخ پر محیط ہیں۔ جمہوریت آتی بھی ہے تو ڈری سہمی، سکڑی خادمہ کی طرح جسے ہر آن یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کس لمحے اس سے کوئی غلطی سرزد ہو اور اسے ایک بار پھر گھر سے نکال دیا جائے۔ غلطی بھی ضروری نہیں، مالکہ کے ذہن میں کسی وقت بھی کوئی لہر اٹھ سکتی ہے اور خادمہ کو اس جرم میں فارغ کیا جا سکتا ہے کہ وہ آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہے۔ اس ماحول نے سیاسی فضا میں ایک خاص قسم کی بے یقینی پیدا کر دی ہے جو جمہوری ادوار میں بھی گہری دھند کی طرح چھائی رہتی ہے۔ عشروں پر محیط آمریت کو صبر و ضبط کے ساتھ برداشت کرنے بلکہ آمروں کے دربار میں جھومر ڈالنے والے جمہوریت آتے ہی ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپنے لگتے ہیں۔ سات سمندر پار کے برفانی غاروں میں بیٹھے صاحبان جبہ و دستار کا لہو بھی جوش مارنے لگتا ہے۔کڑے وقتوں میں ’’آمریت نہیں جمہوریت‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ان کی زبان لکنت کا شکار ہو جاتی ہے لیکن جمہوریت کی بساط بچھنے کا امکان پیدا ہوتے ہی ان کی خطابت جو بن پہ آ جاتی ہے اور وہ ’’سیاست نہیں ریاست‘‘ کی دہائی دیتے ہوئے سڑکوں پہ آ جاتے ہیں۔
آرٹیکل 6کے نرغے میں آئے پرویز مشرف نے بھی شیخ الاسلام ہی کے فلسفۂ فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ریاست آئین سے زیادہ اہم ہوتی ہے‘‘۔ موصوف کا نکتہ یہ ہے کہ جب ریاست کا وجود ہی خطرے میں ہو، اس کا سارا تانا بانا بکھر رہا ہو تو پھر آئین کی پاسداری کی جائے یا ریاست کو بچایا جائے؟ بظاہر یہ بڑی پرکشش دلیل ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ خدائی فوجدار کون ہے جو فیصلہ کرے کہ ہاں ریاست خطرے میں ہے اور اس کے تحفظ کے لئے آئین کو روندنا ضروری ہو گیا ہے۔ اب تو وقت گزر گیا ہے۔کیا پرویز مشرف اللہ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے سینے پہ ہاتھ رکھ کے کہہ سکتے ہیں کہ 12؍اکتوبر 1999ء کو اسلامی جمہوریۂ پاکستان نامی ریاست کی سلامتی اس قدر خطرے میں پڑ گئی تھی کہ آئین کو روندنا اور منتخب وزیراعظم کو ایک قلعہ کی کال کوٹھڑی میں ڈالنا ناگزیر ہو گیا تھا؟ کیا وہ قرآن ہاتھ میں لے کر عدالت کو بتا سکتے ہیں کہ 3؍نومبر 2007ء کو پاکستان کا وجود کسی ایسے سنگین خطرے سے دوچار ہو گیا تھا کہ آئین کو ایک طرف پھینک کر نام نہاد ایمرجنسی نافذ کرنا لازم ٹھہرا۔ تاریخ کے در و دیوار پہ کندہ حقیقت تو صرف اس قدر ہے کہ پہلی بار ملک کے چیف ایگزیکٹو نے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے آپ کو برطرف کر دیا تھا۔ آپ نے اپنی نوکری بچانے کے لئے فوج کو استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم، آئین، جمہوریت، پارلیمنٹ سب کو گھر بھیج دیا۔ دوسری بار عدلیہ آپ کی اس آرزوئے بے تاب کی راہ میں مزاہم تھی کہ جرنیلی وردی سمیت صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دے دی جائے۔ آپ نے ایک بار پھر فوج ہی کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے آئین کو روندا، عدلیہ کو گھر بھیجا اور خود ساختہ عدالت سے من پسند فیصلہ حاصل کر لیا۔ پاکستان 12؍اکتوبر 1999ء کو بھی محفوظ تھا اور 3؍نومبر 2007ء کو بھی اسے کوئی داخلی یا خارجی خطرہ نہ تھا۔ دونوں بار ذاتی مفاد کے خناس نے آپ کو آئین روندنے کی شہہ دی۔ دونوں بار آپ نے ریاست نہیں اپنے دل و دماغ میں پلتے حرص و ہوس کے سپولیوں کو دودھ پلایا‘‘۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاتے ہوئے آپ مسلسل اپنی ذات کے بت کی پرستش کرتے رہے۔
پرویز مشرف کو اپنے دفاع کا بھرپور حق حاصل ہے، انہیں اپنے نامی گرامی وکلا کی مدد سے ثابت کرنا چاہئے کہ 3؍نومبر 2007ء کو واقعی پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی تھی جس کے لئے آئین کو ٹھڈا مار کرچیف جسٹس سمیت 60 جج صاحبان کو حراست میں ڈالنا ضروری ہو گیا تھا اور یہ کہ عبدالحمید ڈوگر کے چیف جسٹس بننے اور ایک جرنیل کو وردی سمیت صدارتی انتخاب کی اجازت دیتے ہی یہ خطرہ ٹل گیا۔ اگر وہ یہ ثابت کر لیتے ہیں کہ انہوں نے یہ اقدام واقعی ملک و ملّت کی بھلائی کیلئے کیا تھا اور ایمرجنسی کا نفاذ، آئین کی توہین کے زمرے میں نہیں آتا تو ان کی بریّت پر کسی کو کوئی اعتراض نہ ہو گا لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی توجہ آئینی و قانونی جنگ پر مرکوز رکھیں اور بارودی سرنگوں والے علاقوں میں اچھل پھاند نہ کریں۔
انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ ایک بار پھر پرلے درجے کی خودغرضی اور مفاد پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوج کو اس قضیے میں گھسیٹ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج ان کی پشت پر ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس مقدمے کے حوالے سے فوج کو سخت تشویش ہے۔ انہوں نے تاثر دیا کہ معاملہ آگے بڑھا تو فوج انہیں بچانے آ جائے گی۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے وہ یہاں تک کہہ گئے کہ ’’میں آرمی چیف پر چھوڑتا ہوں کہ وہ میرے دفاع میں کہاں تک جاتے ہیں؟‘‘ یہ ایک ایسے شخص کی سوچ ہی ہو سکتی ہے جو اپنی ذات کو آئین، قانون، جمہوری نظام، عدلیہ اور فوج کی ساکھ سے بالاتر خیال کرتا ہو۔ میں نے بہت پہلے کسی کالم میں پرویز مشرف ہی کے حوالے سے بندریا کی مثال دی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دھوپ میں اس کے پائوں جلتے ہیں تو وہ اپنے بچّوںکو پائوں کے نیچے رکھ لیتی ہے۔ فوج نے پرویز مشرف کو بہت کچھ دیا۔ جواب میں پرویز مشرف نے دو بار اس فوج کی طاقت کو اپنے مفادات کی بھٹی میں جھونک دیا۔ اگر وہ واقعی ایک بہادر شخص ہیں تو انہیں سینہ تان کر کہنا چاہئے کہ نو برس تک بادشاہی میں نے کی، جاہ و جلال میں نے دیکھا، اقتدار کے مزے میں نے لوٹے، آج اگر آزمائش کی کوئی گھڑی آ ہی گئی ہے تو میں تن تنہا اس کا سامنا کروں گا۔ میری فوج، میری ماں جیسی ہے، اسے اس قضیے میں مت گھسیٹو لیکن کیا بے چہرہ شخص ہے کہ پائوں جلنے لگے تو اپنے ادارے کو پائوں تلے رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے اندازہ نہیں کہ وہ ایک بار پھر آرٹیکل 6 کی زد میں آ رہا ہے۔ عدالتی کارروائی میں خلل ڈالنے کیلئے فوج کو پکارنا اور ہلاشیری دینا کس زمرے میں آتا ہے؟
پرویز مشرف نے پہلی بار اعتراف کیا کہ وہ مشکل میں ہیں لیکن اس مشکل سے نکلنے کیلئے ان کے پاس کئی راستے ہیں۔ وہ اپنے گناہوں کا پشتارہ فوج کے کندھوں پر کیوں ڈال رہا ہے؟ پاکستان کی سلامتی کیلئے لہو کا نذرانہ پیش کرنے والے خاندان کے سپوت جنرل راحیل شریف نے کیا مشرف نامی شخص کے دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے یا وطن کے دفاع کا؟ کیا مشرف یہ چاہتا ہے کہ راحیل شریف ایک ملزم کو بچانے کیلئے ریاستی آئین، قانون، انصاف اور عدالتی نظام کا تختہ الٹ ڈالے؟ کیا اس خود پرست شخص کی خواہش یہ ہے کہ ’’اسے بچانے کے لئے فوج اپنی وردی پر ایک ایسا داغ لگائے جو برسوں تک نہ دھل سکے؟ کیا مال غنیمت اور کشور کشائی کے بجائے شہادت کو مطلوب و مقصود سمجھنے والی سپاہ ایک ملزم کو بچانے کیلئے پاکستان کو ایک نئے سنگین بحران کی چتا میں جھونک دے؟ یہ فوج، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تفاخر اور ہمارے ناموس کی علامت ہے۔ یہ کسی بدمست ڈکٹیٹر کی ذاتی ملیشیا نہیں۔ مشرف کی تجوری میں اربوں روپیہ پڑا ہے۔ وہ اس روپے کے زور پر ڈٹ کر اپنا مقدمہ لڑے لیکن ہماری فوج کو معاف رکھے۔ جنرل راحیل شریف کو قدرت اس مقام بلند تک اس لئے نہیں لے کر آئی کہ وہ مشرف کی ڈھال بن جائے، اس کے پاس کرنے کے اور بہت سے کام ہیں۔
تازہ ترین