غیرقانونی طور پر یورپ داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی کشتی بحیرہ روم میں ڈوب جانے سے سینکڑوں پاکستانی لقمہ اجل بن گئے، اگرچہ یہ پہلا یا آخری حادثہ نہیں مگر اب تک کا سب سے بڑا سانحہ ضرور ہے۔اس بدترین اور بھیانک حادثے سے متعلق بہت دلخراش تفصیلات سامنے آئیں۔یہ تاثر بھی دیا گیا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کریہاں سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ لوگ اپنی جمع پونجی لٹا کر موت کے اس سفر پر کیوں روانہ ہوتے ہیں؟
’’اگر امیر ہوناہے تو ڈنکی لگائو،یورپ جائو ورنہ یہیں مزدوری کرتے ہوئے مر جائو۔‘‘اس طرح کے جملے آپ کو اکثر سننے کو ملتےہوںگے۔پنجاب کےضلع منڈی بہائوالدین ،گجرات،سیالکوٹ،حافظ آباد اور آس پاس کے دیگر علاقوں کے مکین ڈنکر یا ڈنکی کی اصطلاح سے بہت اچھی طرح سے واقف ہیں کیونکہ یہاںکے زیادہ تر لوگ بیرون ملک مقیم ہیں ،جو قانونی طور پر باہر نہیں جا سکتے ،وہ دوسروں کی دیکھا دیکھی ،غیر قانونی طریقے سے یونان ،اٹلی یا فرانس جانے کی کوشش کرتے ہیں۔سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیںکہ ڈنکی لگاکر یورپ جانے کی کوشش کرنے والے مسافرکون سا روٹ اختیار کرتے ہیں۔اس نیٹ ورک میں گھس کر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایران ،ترکی اور یونان کا روٹ استعمال ہوا کرتا تھا۔مقامی ایجنٹ ڈنکی لگانے والوں کو کوئٹہ بھیجتے تافتان بارڈر کے ذریعے ایران میں داخل ہونے کے بعداگلی منزل ترکی ہوا کرتا تھا،استنبول سے یونان اور پھر من پسند یورپی ملک تک پہنچا جاتا تھا۔یونان کی سکیورٹی فورسز نے ان غیر قانونی تارکین وطن کی حوصلہ شکنی کیلئے نہایت سخت اقدامات شروع کئے۔گرفتار کرنے کے بجائے موقع پر ہی گولی ماردی جاتی ،نہایت خونخوار تربیت یافتہ کتے چھوڑ دیئے جاتے ،جب یہ راستہ انتہائی غیر محفوظ اور خطرناک ہوگیا تو ایک اور روٹ دریافت کیا گیااور وہ تھا ترکی پہنچنے کے بعد بلغاریہ اور پھر سربیا کے راستے بارڈر کراس کرکے ہنگری میں داخل ہونا۔کچھ عرصہ بعد جرمنی نے فنڈز مہیا کئے تو ہنگری اور سربیا کے بارڈر پر خاردار باڑ لگا کر اس میں کرنٹ چھوڑ دیا گیا یو ں یہ راستہ بھی بند ہوگیا۔انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک سے منسلک افراد کے مطابق اب ڈنکی لگانےکیلئے کوئی بھی زمینی راستہ قابل عمل نہیں رہا۔آجکل جو روٹ استعمال ہورہا ہے وہ ہے پاکستان سے دبئی ،وہاں سے لیبیا اور پھر وہاں تریپولی سے کسی چھوٹی کشتی یا جہاز کے ذریعے بحیرہ روم میں یونان سے ہوتے ہوئے اٹلی پہنچنا۔یہ سفر آپ کی استطاعت کے مطابق نسبتاً آسان یا مشکل ترین ہوسکتا ہے۔مثلاً آپ کے پاس پیسے ہیں تو لیبیا کا وزٹ ویزہ لیکر ہوائی جہاز کے ذریعے قانونی طور پر تریپولی جا سکتے ہیں اور وہاں سے ڈنکی لگا کر اٹلی پہنچنا ہوگا۔ورنہ پاکستان سے دبئی اور پھر لیبیا کا روٹ اختیار کرنا پڑے گا۔پاکستان سے لوگ غیر قانونی طور پر لانچ کے ذریعے دبئی بھی جاتے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایجنٹ کبھی آپ کے ساتھ سفر نہیں کرتا۔اگر بائی روڈ سفر کرنا ہے تو وہ آپ کو گاڑی کا بندوبست کرکے دے گا۔سمندری راستے سے جانا ہے توکشتی میں بٹھا دے گا۔پیدل سفر کرنا ہے بتادے گا کہ ناک کی سیدھ میں چلتے جائیں ،فائرنگ ہوتو بھاگتے رہیں ،رُکنا نہیں۔اگر آپ بچ نکلے تو اگلے سنگ میل پر نیا ڈنکر آپ کو وصول کرلے گا ،مارے گئے یا زخمی ہوگئے تو آپ کی لاش وہیں انجان راستوں پر گل سڑ جائے گی۔
پاکستان سے یورپ بھیجنے والے ایجنٹ تو سہانے مستقبل کے خواب دکھاتے اور بہت خوبصورت منظر کشی کرتے ہیں مگر یہ موت کے سفر پر روانہ ہونے والی بات ہے۔جب تافتان بارڈر کے ذریعے ایران داخل ہوا جاتاتھا تو کنٹینر میں دم گھٹنے سے بیشتر لوگ مرجایا کرتے تھے۔کئی کئی دن بھوکے پیاسے سفر کرنے کے باعث لوگ بیمار ہوکر مرجاتے تو انہیں وہیں بے گور وکفن چھوڑ کر باقی مسافر آگے بڑھتے رہتے ۔ڈنکی لگاتے ہوئے کئی تارکین وطن سمندری قزاقوں یا دیگر جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں اغوا کرنے کے بعد ویڈیوز بنا کر ان کے اہلخانہ کو بھیجتے ہیں اور تاوان مانگتے ہیں۔
بعض ایجنٹوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان سے دبئی ،وہاں سے لیبیا اور پھر تریپولی سے اٹلی کا روٹ سب سے زیادہ محفوظ ہے اور یہاں سے ڈنکی لگانے کا رزلٹ 100فیصد ہے۔اگر ایسا ہے تو پھر بحیرہ روم میں تارکین وطن کی کشتیاں کیوں اُلٹ جاتی ہیں ؟دراصل سکیورٹی اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ڈنکی نہیں لگائی جاسکتی۔تریپولی سے اٹلی لے جانے والے ڈنکر کوسٹ گارڈ ز کو کشتی یا جہاز کے حساب سے رشوت دیتے ہیں یعنی اس کشتی یا چھوٹے جہاز میںلوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش جتنی زیادہ ہوگی ،اتنا ہی زیادہ کمیشن ادا کرنا پڑے گا۔جب ان کا کوسٹ گارڈز سے معاملہ طے ہوجاتا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ لوگ بٹھانے کا لالچ کرتے ہیں ۔ان کشتیو ں پر ڈنکر خود سفر نہیں کرتے ،کسی خرابی کی صورت میں تکنیکی عملہ نہیں ہوتا۔سفر بہت طویل ہوتا ہے ،کھانے پینے کا بندوبست مسافروں نے خود کرنا ہوتا ہے ،راستے میں کئی لوگ دم گھٹنے یا بھوک اور پیاس سے مرجاتے ہیں۔کشتی بے یارومددگار آگے بڑھتی رہتی ہے۔اگر کوئی فنی خرابی ہو جائے یا پھر سمندر میں طغیانی آجائے تو وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے کشتی ڈوب جاتی ہے۔ جب یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ آخر لوگ پاکستان میں رہنے کے بجائے موت کے سفرپر روانہ ہونے کو کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ تو یہ تاویل پیش کی جاتی ہے کہ غربت اور بے روزگاری بہت زیادہ ہے۔لیکن جب کسی پروفیشنل کی ضرورت ہو،اسکلڈ لیبر درکار ہو،یہاں تک کہ اچھا ڈرائیور ،مالی ،الیکٹریشن اور پلمبر چاہئے ہو تو نہیں ملتا۔اگر غربت ہی بنیادی وجہ ہے تو پھر جنوبی پنجاب یا اندرون سندھ کے نوجوان غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟