کوئٹہ ( پ ر) کیو ڈی ایم کے مرکزی کنوینر عبدالمتین اخوندزادہ نے کہا ہے کہ صوبے پر مسلط کمزور ترین حکومت اور کرپٹ بیوروکریسی و اشرافیہ نے مردم شماری میں غفلت، افراتفری و بد انتظامی کے بعد صوبائی دارالحکومت کے لاکھوں انسانوں کے مفاد میں بلدیاتی اداروں کی ازسرنو تشکیل و تعمیر نو کے بجائے غلطیوں کا ہی ٹریک مکمل کر لیا ہے۔ کوئٹہ میں صوبے کے تمام اضلاع کے برعکس بلدیاتی انتخابات کےمسلسل التوا اور حلقہ بندیوں کے نام پر اسٹبلشمنٹ ،عدلیہ اورسیاسی جماعتیں عوامی مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں ۔کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ نے چھ میونسپل کارپوریشن کی تجویز رکھی تھی جبکہ کیو ڈی ایم مسلسل مضافاتی علاقوں ہزار گنجی پنجپائی میاں غنڈی ہنہ اوڑک بلیلی ہزارہ ٹاؤن اور قمبرانی اور مار واڑ میں میونسپل کمیٹیاں تشکیل دینے کی قانون سازی کے عمل میں متحرک اور فعال رہی جبکہ کوئٹہ کے ارکان صوبائی اسمبلی نے وزیر بلدیات کی سربراہی میں اجلاس میں غیر منطقی اور عام آدمی کے مفادات کے برعکس کمزور فیصلہ کیا جسے کیو ڈی ایم نے مسترد کرتے ہوئے میونسپل سروسز کی بحالی اور مجموعی طور پر معاشرتی و سماجی ترقی و خوشحالی کے لئے بلدیاتی اداروں کی ازسرنو تشکیل و انتخابات کے انعقاد کیلئے ضروری کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی تفصیلات طے کرنے کے لئے 10 جولائی کو کیو ڈی ایم کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کرلیا گیا ہے جس میں کوئٹہ میں مردم شماری کے نقصانات کے ازالے اور بلدیاتی اداروں کی تشکیل و انتخابات میں تاخیر کے نقصانات و مضمرات کا تفصیلی جائزہ لے کر اہم فیصلے کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ وزیر بلدیات نے اپنے ضلع میں چھ میونسپل کمیٹیاں تشکیل دیں اور ضلع کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ کوئٹہ کے ارکان اسمبلی و سیاسی جماعتوں کو بیوقوف بنایا گیا اس لئے ضروری ہے کہ عوام ان کی گرفت کریں اور انہیں بامقصد قانون سازی پر مجبور کریں تاکہ اچھی کارکردگی والے بلدیاتی اداروں تشکیل نو اور انتخابات منعقد ہوسکیں۔انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے تمام علاقے خصوصا اندرون شہر،نواں کلی ہنہ اوڑک اور سریاب ودیگر مضافاتی علاقے مسائلستان بنے ہوئے ہیں۔ اکھڑی ہوئی سڑکوں اور منہدم گلیوں نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ بجٹ میں عوامی مفادات کے تحفظ و کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری بنیادی فیصلے نہیں کئے گئے۔ ضروری ہے کہ اشرافیہ کی مراعات فریز کرنے کا فیصلہ کیا جائے اور نان ڈولیپمنٹ اخراجات کو پبلک کیا جائے۔