زندگی بھر ہم بہت بڑی خوش فہمیاں اور غلط فہمیاں پالتے رہتے ہیں۔ ان خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کے ساتھ رہنے کا ہنر ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ ہم یہ ہنر آنے والی نسلوں کو ورثے میں دیں گے۔ ان خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں میں سب سے اثر دار خوش فہمی اور غلط فہمی ہمیں ایک ہونےکی ہوتی ہے۔ ایک ہی محلے میں رہنے والے لوگ مرتےدم تک سمجھتے ہیں کہ محلے میں رہنے والے لوگ ایک ہوتے ہیں۔ وہ ایک عقیدہ رکھتے ہیں۔ ایک زبان بولتے ہیں۔ ایک جیسے رویے رکھتے ہیں۔ ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔ خوش فہمی کے اسی زاویے میں مبتلا مختلف ممالک میں رہنے والے لوگ زندگی بسر کرتے ہیں۔ مگر زمینی حقائق اس سوچ سے مختلف ہوتے ہیں۔ دو سگے بھائی، دو جڑواں بھائی، اپنے رویوں ، اپنی سوچ، اپنی شخصیت میں ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوتے ہیں۔ وہ تب تک ایک ہوتے ہیں جب تک ایک دوسرےکا احترام کرتے ہیں۔ وہ تب تک ایک ہوتےہیں جب تک ایک دوسرے کی آراکا احترام کرتے ہیں۔ وہ تب تک ایک ہوتے ہیں جب تک زن، زر اور زمین کو اختلاف کا سبب بننے نہیں دیتے لہٰذا ایک ہونا ہر لحاظ سے مشروط ہے۔ شرط یہ ہے آپ کو ایک دوسرے کی خواہشات،ضروریات، حاجت اور تمنائوں کا حتی الامکان لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔
ایک قیاس آرائی کر کے دیکھتے ہیں۔ آپ جس ادارے میں کام کرتے ہیں، اس ادارے میں ڈیڑھ سو یا دو سو لوگ ملازمت کرتےہیں۔ آپ کے ادارے میں لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے ہنگامے نہیں ہوتے۔ دھرنے نہیں دیے جاتے۔ آپ خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ آپ کے ادارے میں چونکہ کام کرنے والے ایک نوعیت کے لوگ ہیں، اس لئے ان کے درمیان لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے۔ کام کرنےوالے چونکہ ایک ہوتے ہیں، اسلئے ان کے درمیان آئے دن چپقلش دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس کے برعکس ایک دوسرے ادارے میں کام کرنےوالوں کے درمیان روزانہ لڑائی جھگڑے ہوتے رہتےہیں۔ ملازمین آئے دن اسٹرائیک کرنے پر تلے بیٹھے ہوتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جس میں ملازمین اور منتظمین کے درمیان تلخ کلامی نہ ہوتی ہو ۔ آپ سمجھتے ہیں کہ اس ادارے میں کام کرنے والے ملازمین آپس میں جڑے ہوئے نہیں ہیں وہ ایک نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ادارہ بد نظمی کا شکار ہے۔ آپ اس قدر خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں میں مبتلا رہے ہیں کہ آپ اس سے آگے سوچ نہیں سکتے۔ آپ نے اپنے آپ کو اپنی سوچ کا قیدی بنا دیا ہے۔
ہم ایک نہیں ہوتے۔ ہمارے رویے، ہماری سوچ ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہے۔ سب کی پسند اپنی اپنی اور منفرد ہوتی ہے۔ ہم سب اپنے اپنے انکار اور اپنی اپنی رضا مندی، پسندیدگی میں الجھےہوئے ہوتے ہیں۔ میں آپ کو نئی بات بتانے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں۔
دنیا کے ممالک اور ان ممالک میں بسنے والے لوگ چھوٹے بڑے بٹواروں میں بٹے ہوئے ہیں۔ چھوٹے بڑے بٹواروں میں دو اہم ترین بٹواروں نے دنیا اور دنیا میں بسنےوالوں کو دو مختلف اور منفرد اکائیوں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک اکائی میں زیادہ تر ایسے لوگ بستے ہیں جہاں آئے دن دنگے فساد، لڑائی جھگڑے، جلائوگھیرائو اور چھینا جھپٹی ہوتی رہتی ہے۔ ان سب لوگوں کو عزت، جان و مال کے لالے پڑے رہتے ہیں۔ اس خلفشار اور بے یقینی کے اسباب کی کھوج لگانے والے آپ کو واضح الفاظ میں آگاہ کر دینگے کہ ایسے مضطرب اور پریشان کن ممالک میں رہنےوالے لوگ ایک نہیں ہوتے ۔ ان کے عقیدے،ان کی زبان، ان کی سوچ ایک نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس دوسری اکائی کے لوگ جن ممالک میں رہتے ہیں ان کی زبان بھی ایک نہیں ہوتی۔ ان کے عقیدے بھی ایک نہیں ہوتے۔ ان کی سوچ بھی ایک نہیں ہوتی۔ ان کی تہذیب و تمدن اور ان کی ثقافت ایک نہیں ہوتی، مگر پہلی اکائی میں شامل ممالک کی طرح دوسری اکائی میں شامل ممالک میں دنگے فساد نہیں ہوتے۔ لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے۔ افراتفری نہیں ہوتی۔ لوٹ کھسوٹ نہیں ہوتی۔ لوگوں کو جان و مال کے لالے پڑے ہوئے نہیں ہوتے۔ دوسری اکائی میں شامل امن کے گہوارے ممالک کے پاس کوئی غیر معمولی طلسم نہیں ہے۔ ان کے پاس ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ، تعلیم اور تربیت ہے۔ ایک دوسرےکی عزت کرنا وہاں کے لوگوں کی گھٹی میں بٹھایا ہوا ہے۔ عدم برداشت کا لفظ وہاں کے لوگوں نے اپنی ڈکشنری سے نکال دیا ہے۔ ایسے ممالک کو ہ قاف میں چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ یورپ کے اکثر ممالک میں رہنے والے لوگ اپنی اپنی حدود کا احترام کرتے ہیں۔ اور دوسروں کی حدود کو قبول کرتے ہیں، اور ان حدود کا سختی سے لحاظ کرتے ہیں۔ آپ برملا پوچھ سکتے ہیں کہ پچھلے دنوں سویڈن میں جو کچھ ناقابل قبول ہوا تھا۔ اس شرپسندی کو آپ کس کھاتے میں رکھتےہیں ؟ شیطان ہوتا ہے ، نہیں ہوتا، میں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ کچھ رویے شیطانی ہوتے ہیں۔ ان رویوں میں ریا کاری ، تباہی اور بربادی ہوتی ہے۔ سویڈن میں شیطانی سوچ رکھنے والا شخص تباہی کا باعث بننے والے لوگوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ایسے لوگ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہو سکتے ہیں۔ مگر تہذیب یافتہ ممالک میں ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ اپنی گھنائونی حرکت سے اس شخص نے چاہا تھا کہ مسلمان بھڑک اٹھیں اور اپنے اپنےممالک میں بائبل مقدس کی بے حرمتی کریں اور کلیسائوں کو آگ لگا دیں۔ اگر اس خناس نے مقدس گیتا کو آگ لگائی ہوتی، تو در پردہ اس شخص نے چاہا ہو تا کہ دنیا بھرمیں آباد ہندو بھڑک اٹھیں، اور بائبل مقدس کی بے حرمتی کریں اور کلیسائوں کو آگ لگا دیں۔ آپ جس ملک میں شیطانی حرکت کرتے ہیں، لا محالہ آپ کی حرکت اس ملک کے لئے بدنامی کا باعث بنتی ہے۔