• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گذشتہ تین چار برس سے ملک غذائی قلت کا شکار ہے خوش قسمتی سے چینی کا عنصر باقی بچا تھا جس کی پیداوار سرپلس ہے لیکن اسمگلر ، ذخیرہ اندوز اور منافع خور مافیا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ کین کمشنر پنجاب کی طرف سے صوبے کے ڈپٹی کمشنروں کو جاری مراسلے میں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ چینی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے اور اسکی افغانستان اسمگلنگ روکنے کے اقدامات کریں۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان کے مختلف روٹوں سے ہفتے بھر میں تقریباً سات سو ٹن چینی افغانستان پہنچائی جاتی ہے۔ان میں چمن، قلعہ سیف اللہ،قلعہ عبداللہ،پشین اور ژوب کے علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں سے قانونی طور پر جانے والے تجارتی ٹرکوں میں چینی سے لدی ہوئی گاڑیاں بھی جانچ کے بغیر ہی کلیئر کردی جاتی ہیں ۔وفاقی حکومت نے گذشتہ سیزن میں مل مالکان کے اصرار پر مجموعی طور پر اڑھائی لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس صورتحال میں اندرون ملک مقامی کھپت کے مطابق چینی کے ذخائر باقی رہ جاتے ہیں ۔ عموماً منافع خور، ذخیرہ اندوز اور اسمگلنگ مافیا اس کا فائدہ اٹھاتا ہے اور اسٹاک کم ہوجانے یا مصنوعی قلت پیدا کرکے اس کی قیمتیں بڑھادی جاتی ہیں۔ واضح ہو کہ پانچ ماہ قبل بھی ایسی ہی صورتحال پیدا ہوگئی تھی اور چینی کے نرخ یک لخت 85 روپے سے بڑھ کر 160روپے فی کلو تک جاپہنچے تھے جس پر حکومت نے چھاپے مار کر ذخیرہ شدہ چینی برآمد کروائی۔ یہ صورتحال اب دوبارہ درپیش ہے اور کوئٹہ، پشاور،لاہور اور کراچی سمیت چھوٹے بڑے شہروں میں اس کے نرخ 150روپے فی کلو تک جاپہنچے ہیں اگر اسمگلروں، ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں سے قانون کے مطابق آہنی ہاتھوں سے نہ نمٹا گیا تو ممکنہ حالات پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر ہو سکتے ہیں تاہم اب کی بار اقدامات عارضی نوعیت کے ثابت نہیں ہونے چاہئیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین