• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر مساوی معاشرتی ترقی اور خواتین کی زندگیوں پر قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرتی تقسیم کے اثرات کی وجہ سے پاکستان میں خواتین کی حیثیت کلاسوں ، علاقوں اور دیہی / شہری تقسیم میں کافی حد تک مختلف ہوتی ہے۔مجموعی طور پر ، پاکستان میں خواتین کے حقوق میں بہتری آ رہی ہے اور پاکستانی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد تعلیم یافتہ اور خواندہ ہے۔ مذہبی گروہ اور سول سوسائٹی خواتین کے خلاف تشدد کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کے حق میں آواز کافی توانا ہے۔ پاکستانی علماء بھی خواتین کے حقوق کی بات کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ جب شہید بینظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو متعدد علماء ان کی مخالفت میں کھڑے نظر آرہے تھے۔پاکستان کی عدالتوں نے ہمیشہ ملک بھر میں خواتین کے حقوق کے حامیوں کے مطالبات پورے کئے ہیں اور خواتین کے خلاف پرتشدد جرائم کی سخت سزا دی ہے۔پاکستان کا آئین جمہوری اصولوں کی حمایت کرتا ہے اور تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کے پیچیدہ سماجی و آبادیاتی اور ثقافتی پہلوؤں میں خواتین کو بااختیار بنانے کا رجحان ہمیشہ ہی رہا ہے۔ خواتین کو انسانی ترقی کے تمام اہم پہلوؤں میں مردوں سے کم درجہ دیا جاتا رہا ہے۔لہٰذا ، پاکستانی تناظر میں خواتین کو بااختیار بنانے کے مختلف عزم کا مطالعہ کرنے کی فوری ضرورت ہے،کیوں کہ جب آئین اور مملکت پاکستانی خواتین کو بھرپور حق دیتےہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ معاشرتی ترقی میں خواتین پیچھے رہ جائیں ؟ ۔ دور کیوں جائیں بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے اپنی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں خواتین کو 80فیصد سے زیادہ حصہ دے کر نہ صرف انہیں مالی طور پر خود مختاری دی ہے بلکہ اس عمل سے وہاں کی آبادی کی شرح میں بھی بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

گزشتہ ماہ ایک شادی شدہ عورت سیماچار بچوں کے ساتھ ایک ہندو لڑکے کی محبت میں غیر قانونی طور پر نیپال کے راستے بھارت پہنچ گئی۔ بھارتی میڈیا میں سیماکا خوب چرچا ہے، کوئی اسے پاکستانی ایجنٹ قرار دے رہا ہے تو کوئی اسے ہندوستان کی بہو۔ خیر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیما چار بچوں کی ماں ہے اور اس کا خاوند اس کے نئے ہندو بھارتی خاوند سےکم از کم 300گنا زیادہ کماتا تھا، سیماکو پاکستان میں مکمل آزادی تھی، وہ اپنے گھر میں آزاد تھی کیوں کہ اس کا شوہر کئی برسوں سے سعودی عرب میں مقیم ہے، سیما کے سسرال میں سے کوئی بھی شخص اس کے ساتھ مقیم نہ تھا، سیما کے ہاں ساس اور بہو کے جھگڑے کی بھی کوئی داستان دکھائی نہیں دیتی لیکن اس کے باوجود ایک بہترین زندگی کو خیرباد کہہ کر سیما نے مشکل زندگی کا سفر کیوں شروع کیا ؟ کیا یہ صرف ایک سیما ہے؟ اس جیسی بھارت ،پاکستان اور جنوبی ایشیا میں لاکھوں سیما ئیںموجود ہیں جن کے پاس زندگی کی تمام آسائشیں ہین لیکن اس کے باوجود وہ زندگی سے خوش نہیں۔ ہم سیما پر لعن طعن کر رہے ہیں کہ اس نے مذہب کیوں تبدیل کیا، اس نے بھارت جانا کیوں پسند کیا لیکن کیا ہم اپنے معاشرے سے اور سیما کے خاوند سے یہ سوال کریں گے کہ آخر سیما نے پرامن اور بہترین معاشی زندگی کوخیرباد کرکے تلخ اور مشکل سفر کیوں منتخب کیا اور پھر اسے کوئی مسئلہ نہیں وہ اس تلخ سفر میں خوش ہے وہ ہر طرح کی مصیبت جھیلنے کے لئے تیار ہے آخر کیوں ؟

سیما بھارتی میڈیا کو بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوگئی کہ اس کے پاس سب کچھ تھا لیکن وہ خوش نہ تھی کیوں کہ اس کا خاوند فون پر اسے گالیاں دیتا تھا، ذرا فون کال لیٹ موصول کرتی تو شک کرتا تھا، پیسےدیتا تھا مگر عزت نہیں کرتا تھا، سیما کی کہانی میں بہت سی تلخ حقیقتیں موجود ہیں کہ جب ایک عورت کو عزت اور پیار نہ ملے تو پیسہ اور بہترین زندگی کس کام کی ؟ سیما جیسی سینکڑوں خواتین ہوں گی جن کے شوہر ملک سے باہر اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے دن رات ایک کر رہے ہیں لیکن جوانی میں جب ایک بیوی کو اپنے خاوند کا ساتھ ہی نہ ملے تو کیا محبت کی تلاش اس کا جنون نہیں بنتا ؟ سینکڑوں ایسی خواتین بھارت، افغانستان میں بھی موجود ہوں گی جن کے شوہر انھیں بہترین زندگی فراہم کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں کو پائوں کی جوتی سمجھتے ہیں اور پھر یہ پائوں کی جوتی ایسے ہی سر پر آلگتی ہے جیسے حیدر کے سر پر لگی۔

سیما کا فیصلہ بھارت سرکار کو کرنا ہےتاہم سیما اگر واپس آتی ہے تو اس کی زندگی کولاحق خطرات کا بھی ہمیں اندازہ ہے۔ خواتین کسی بھی معاشرے کے سر کا تاج ہوتی ہیں، جب جب خواتین کا استحصال ہوا ہے تو وہاں ایک بغاوت نے جنم لیا ہے اس مرتبہ یہ بغاوت سیما کے نام سے سامنے آئی ہے مگر ہمیں فی الفور ایسے واقعات سے بچنے کے لئےاپنے قانون کو مزید سخت اور مضبوط کرنا چاہئے کہ ایک عورت اپنے معصوم بچوں کے ساتھ بغیر میاں،بھائی یا باپ کے ، کیسے ملک سے غیر قانونی طریقےسےباہر جا سکتی ہے ؟اس کے ساتھ ساتھ ملکی قوانین میں عورت کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بناکر بھی ایسے واقعات سے بچا جاسکتا ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین