گزشتہ چنددنوں سے سوشل میڈیا پر شمالی علاقہ جات کی سیر کو گئی ایک فیملی کی ویڈیو وائرل ہے جو لینڈ سلائڈنگ کے باعث بھاری پتھروں کے نیچے دب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھی،میڈیا رپورٹس کے مطابق گلگت ا سکردو روڈ پر سیاحوں کی گاڑی پر اچانک لینڈ سلائڈنگ شروع ہو گئی جسکے نتیجے میں بھاری پتھروں کی زد میں یہ بدقسمت خاندان آگیا۔ رات کے آخری پہر پیش آنے والے اس سانحہ کا سب سے المناک پہلویہ ہے کہ گھنٹوں سے پتھروں کے نیچے دبے یہ لوگ اپنی اور اپنے پیاروں کی جان بچانے کیلئے جستجو کرتے رہے لیکن وسائل کی کمی، موسم کی شدت، جگہ جگہ لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے بلاک روڈاورموبائل نیٹ ورک کی عدم دستیابی جیسے گمبھیر مسائل کی وجہ سے بروقت امداد سے محروم رہے اور آخرکار یہ لوگ جان کی بازی ہار گئے،سات افراد پر مشتمل سیاحوں کے اس گروپ میں صرف خاندان کا سربراہ شفاء اور اسکا دوست محمد علی زندہ بچ پائے جبکہ انکی اہلیہ، ان کی دو بیٹیاں اور ایک نواسہ جاںبحق ہو گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تو ایک بدقسمت خاندان تھاجسکی کہانی منظر عام پرآگئی، اس کے علاوہ نجانے کتنے اور معصوم لوگ سیاحت کے شوق میں شمالی علاقہ جات کی سیر کو جاتے ہیں اور خراب راستوں اورمتعلقہ اداروں کی غفلت و لاپروائی کے باعث حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔مجھے یاد ہے گزشتہ بدھ کو جب میں بھمالہ اسٹوپا خانپور ڈیم سےاسلام آباد آرہا تھا تو مجھے گلگت بلتستان کی سیرکیلئے گئی کسی فیملی کی فون کال آئی جو لینڈ سلائڈنگ کا سامنا کررہی تھی اور شدید گھبرائے ہوئی تھی۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ آس پاس دیگر گاڑیوں میں سوار لوگوں کے ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت راستہ کلیئر کرنے کی کوشش کریں، مجھے یہ جان کر شدید حیرت ہوئی کہ وہاں صرف ایک مخصوص ادارے کے علاوہ کسی کو راستہ صاف کرنے کی اجازت نہیں، میں نے وہاں کی اعلیٰ انتظامیہ سے رابطہ کیا توانہوں نے بھی معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ ایس او پی کے تحت صبح ہی راستہ کلیئر کیا جاسکتا ہے، تاہم،میں نے ہمت نہ ہاری اور مختلف اداروں کے اعلیٰ حکام کو اپروچ کرتا رہا ، آخرکار میری کوششیں رنگ لے آئیں اور مقامی اداروں کی طرف سے سیاحوں کو وہاں سے ریسکیو کرکے وقتی طور پر رات گزارنے کیلئے محفوظ جگہ فراہم کردی گئی اور صبح انہیںبحفاظت منزل کی جانب روانہ کردیا گیا۔میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان دنیا کے ان چند خوبصورت ترین ممالک میں شامل ہے جنہیں خدا نے چار موسم ، قدرتی حسن کے نظارے اور مختلف قدیمی تہذیبوں کی تاریخ کا امین بنایا ہے،لیکن ہم اپنے فرائض میں کوتاہی ، منصوبہ بندی کے فقدان اور فیصلہ سازی کی صلاحیت سے عاری ہونے کی بناء پر دنیا سے پیچھے ہوتے جارہے ہیں۔میں نے وزیر اعظم کی ٹاسک فورس برائے گندھارا سیاحت کے چیئرمین کا چارج سنبھالنے کے بعدگلگت بلتستان کی سنگلاخ چٹانوں میں ہزاروں سال قدیم کنندہ نقش نگاری راک آرٹ کو سیاحتی فروغ کیلئے اہم مقامات میں سے اہم ترین گردانا ہے ، میرا گندھارا کے ہفتہ واردورے شروع کر نے کا مقصد ہی یہ ہے کہ میں عالمی سفیروں اور میڈیا نمائندگان کے ہمراہ گندھارا تہذیب کی باقیات، کھنڈرات اور مقدس مقامات کا بذاتِ خود مشاہدہ کروں،اس سلسلے میں میرا ارادہ گلگت بلتستان جانے کابھی ہے، تاہم حالیہ افسوسناک حادثے کی خبرنے نہ صرف میرے اردگرد بلکہ سفارتی حلقوں میں بھی خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی ہے۔ میں نے بطور وزیراعظم ٹاسک فورس برائے گندھارا سیاحت حالیہ حادثے کا نوٹس لیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے شعبے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر لاکر درپیش چیلنجز کی وجوہات کا تعین کیا جائے ، اب تک مجھے جو معلومات فراہم کی گئی ہیں ان کے مطابق گلگت بلتستان کی سیاحت کے فروغ میں سب سے اہم اور توجہ طلب چیلنج انفراسٹرکچر کی زبوں حالی اور ریسکیو کی عدم دستیابی ہے۔ علاوہ ازیں، متعلقہ اداروں کو موسمی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد شمالی علاقہ جات کی سیاحت کو جانے والے سیاحوں کیلئے درست ایڈوائزری جاری کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس کے مطابق سیاح اپنے ٹور پلان کریں جبکہ ریسکیو اور فیلڈ اہلکاروں کی پیشہ ورانہ تربیت اور جدید سازوسامان کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ اگر کوئی سیاح مشکل کا شکار ہو رہاہو تو اسکی فوری مدد کی جا سکے، ہر دو کلو میٹر کے فاصلے پر پولیس چوکی اور ساتھ ہی ریسکیو اداروںکی موجودگی ہونی چاہئے تاکہ کسی بھی ایمرجنسی صورتحال میں فوری ایکشن لیا جا سکے،شمالی علاقہ جات میں جانے والے سیاحوں کا سب سے بڑا مسئلہ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کی عدم دستیابی ہے،اس سلسلے میںراستے میں مختلف مقامات پر فون بوتھ بھی قائم کئےجائیں جہاں سے ایمرجنسی نمبرز پر رابطہ کرنے کی سہولت ہو،میری خداسے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور مسافروں پر اپنا خصوصی فضل و کرم کرے ۔!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)