• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج امام عالی مقام، نواسئہ رسولِ خدا، حضرت امام حسینؓ اور ان کے 72جاں نثاروں کا یوم شہادت پورے عالم اسلام میں روایتی اور مذہبی عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے۔ انسانی تاریخ کا یہ المناک ترین واقعہ ہمیشہ کیلئے لہورنگ الفاظ میں لکھنے اور بادیدہ تر پڑھے جانا مجالس عزا اور علم و تعزیے کے جلوسوں کی شکل میں چلا آرہا ہے جس میں امت مسلمہ کیلئے بہت سے بصیرت افروز اسباق موجود ہیں ۔ 10 محرم الحرام 61 ہجری کو میدان کربلا میں ہزاروں (بعض روایات میں 80 ہزار) افراد پر مشتمل یزیدی لشکر نے محض 72نفوس قدسیہ کو جس ظلم و بربریت سے شہید اور نبی زادیوں کو بےپردہ کیا ، بے آب و گیاہ مقام پر ان کے خیمے جلائے ، حتیٰ کہ قیدی بنا کر کوفہ و شام کی گلیوں میں پھرایا ۔ امام عالی مقام نے آخری لمحات میں بھی امت مسلمہ کو اس حادثہ فاجعہ سے بچانے کی کوشش کی مگر یزیدی فوج کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ جگر گوشئہ بتول یزید سے بیعت کرلیں۔ امام نے اپنا اور پیاروں کا سر دینا تو قبول کیا لیکن بیعت نہ کرکے رسول خداﷺ کے دین کو ہمیشہ کیلئے طاغوتی قوتوں سے بچالیا اور امت مسلمہ کو ’’ہرکربلا ‘‘ کے سامنے ڈٹ جانے اور اسلام کو زندہ و تابندہ رکھنےکا درس دیا۔ فی زمانہ اہل ایمان اور حق وانصاف کا اس حقیقت پر یقین کامل رہا ہے کہ واقعہ کربلا کوئی سیاسی اور دنیا حاصل کرنے کی نہیں بلکہ حق و باطل اور خیروشر کی جنگ تھی جس کا حق ادا کرکے امام عالی مقام نے واقعہ کربلا کی شکل میں مثال اہل اسلام پر مسلط ہر طاغوتی حملےکا دینی انداز میں جواب صبرواستقامت کے ساتھ دینے کے طور پر قائم کی۔ حال ہی میں سویڈن اور ڈنمارک میں آیات قرآنی کی بے حرمتی کی چند دنوں میں کئی مرتبہ جو ناپاک جسارت کی گئی یا آئے دن بھارتی، کشمیری، فلسطینی اور برما کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم و جبر کا جو سلوک روا رکھا جاتا ہے اس کی مذمت کے ساتھ ساتھ یوم عاشور کے توسط سے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری سے یہ تقاضا بے جا نہیں کہ وہ اسلامو فوبیا اور مسلم مخالف نفرت کے واقعات کو روکنے کیلئے قابل اعتماد اور ٹھوس اقدامات کریں اور مقبوضہ کشمیر میں محرم کے جلوسوں پر سے پابندی ہٹوائیں۔ واقعہ کربلا کا فلسفہ حقیقت میں امت مسلمہ کو فرقوں میں تقسیم کرنا نہیں بلکہ منقسم گروہوں کو اسوہ حسینی تلے ایک لڑی میں پرونا ہے۔ جس پر موقع و محل کے مطابق مکمل عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔یزید کا اعلانِ بادشاہت اسلامی نظام شورائیت کی نفی اور غیر دینی قوانین کا نفاذ تھا۔ لہٰذا حضرت امام حسینؓ نے اس کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے اسکے بدلے پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں جن مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ ایثاروقربانی کا ایک درخشندہ باب اور ہر پیش آنے والی مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد کے واقعات کا نقطہ آغاز ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ کربلا کی درد ناک داستان کو محض بطور دن یاد کرکے خاموش نہ بیٹھ جائیں بلکہ ہر اہل علم و شعور کیلئے ضروری ہے کہ وہ کربلا والوں کی شہادت کے فلسفے کو اچھی طرح سمجھے اور اپنی زندگی میں اس کی پاسداری کرے۔ یہ یاد رہے کہ واقعہ کربلا کا مقصد حصول اقتدار نہیں بلکہ اصلاح معاشرہ تھاجو عمل کے بغیر ممکن نہیں ۔ واقعہ کربلا میں کئی اہم پیغامات پنہاں ہیں جن کو سمجھنا اور اختیار کرنا وقت کا تقاضا اور اہم ضرورت بھی ہے۔ ہمارا دینی فریضہ ہے کہ واقعہ کربلا سے جو پیغامات ملتے ہیں ، ان پر صدق دل ، حسن نیت اور عزم راسخ کے ساتھ عمل پیرا ہوں جو امام عالی مقام اور ان کے 72ساتھیوں کی شہادت کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ نواسئہ رسول نے اپنی اور اہل خانہ کی قربانی پیش کرکے ثابت کردیا کہ اہل حق اپنا سر تو کٹاسکتے ہیں لیکن باطل کے سامنے جھکا نہیں سکتے۔

تازہ ترین