گذشتہ جولائی کے اواخر میں چین کے نائب وزیراعظم، ہی لن فنگ کے دورہ پاکستان کے موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان چھ نئے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ ان معاہدوں کو جوکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کے تناظر میں طے پائے ہیں، سی پیک کے دوسرے مرحلے سے تعبیر کیا گیا ہے۔چین اور پاکستان دونوں کی قیادتوں نے حالیہ اتفاق رائے کو سی پیک کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہی قرار دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے دیرینہ تعلقات اور سرد گرم موسموں میں ان کے تسلسل کا حوالہ دے کر دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کا اعلان کیا گیا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سی پیک کے قیام اور اس کے گذشتہ دس برسوں کے حاصلات پر گفتگو کے ساتھ ساتھ ہی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے معاشی، سیاسی، علاقائی، بین الاقوامی اور عسکری پہلوئوں کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ سی پیک کو ئی ہوائوں میں قائم ہوجانے والا منصوبہ نہیں ہے بلکہ یہ اتنا بڑا اور بامعنی منصوبہ ہے جس کی تکمیل کو بجا طور پر گیم چینجر قرار دیا گیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ منصوبہ علاقائی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاسی و معاشی صورتِ حال پر بھی کچھ اس طوراثر انداز ہوگاکہ دنیا کا معاشی منظر نامہ تک تبدیل ہوجائے گا اس کا مطلب ہے کہ عالمی سیاست کی صف بندی ایک نئے طور پر عمل میں آنے لگے گی۔
منصوبے کا پس منظر
پاکستان اور چین کے درمیان راہداری (سی پیک) کی تعمیر کی تاریخ کئی سنگ ہائے میل سے ہوکر گزری ہے۔1982میں خنجراب پاس ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ اس درّے میں سڑک بنانے کا کام دو عشروں میں مکمل ہوا تھا۔ اِدھر گوادر کی بندرگاہ کو سنگاپور کی ایک کمپنی کو لیز پر دیا گیا تھا مگر 2013 میں لیز کے حقوق ایک چینی کمپنی کو منتقل کردیے گئے۔
اسی سال مئی کے مہینے میں پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کی منظوری عمل میں آئی۔ چین کے وزیراعظم ،لی کھا چیانگ پاکستان تشریف لائے اور پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کے قیام پر اصولی اتفاق رائے ہوا۔ 2015 میں سی پیک کے اُس معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت خنجراب اور گوادر کے درمیان سڑکوں کا جال بچھایا جانا طے پایا تھا۔2016میں اُس وقت تک جتنی سڑک بنی تھی اُس پر سامان کی ترسیل کا عمل شروع ہوا۔
منصوبے کے تحت چین کی طرف سے اس پر 46ارب ڈالر لگانے کا اعلان کیا گیا۔اس رقم میں سے 34ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں اور 12ارب ڈالر انفراسٹرکچر پر خرچ ہونے تھے۔ابتداً یہ خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ منصوبہ 2030میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔
سی پیک کا منصوبہ ویسے تو چین اور پاکستان کے درمیان طے پانا والا منصوبہ ہے لیکن یہ درحقیقت چین کی تیزی سے بڑھتی اور پھیلتی ہوئی معیشت اور دنیا کے مختلف خطوں تک پہنچنے کی اس کی تجارتی حکمت عملی کا محض ایک حصہ ہے۔1980کے عشرے ہی سے چین کے فیصلہ سازوں میں یہ سوچ پروان چڑھنا شروع ہوچکی تھی کہ اُس کو اپنے اُس وقت تک کے اشتراکی ماڈل سے آگے بڑھنا ہوگااور عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں اپنی صورت گری کے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔
1990 تک پہنچتے پہنچتے جب سوویت یونین کی تحلیل شرو ع ہوئی اور سرمایہ دارانہ نظام کو عالمی سطح پر خود کو پھیلانے اور بڑھانے کا موقع ملا تو سرمائے کی اس عالمگیریت کے تناظر میں چین نے بھی اپنا نیا کردار وضع کیا۔ اب وہ بھی اس نظام کے ایک حصے کے طور پر ایک طرف بازار کی معیشت (Market Economy)کو اپنے ملک کے اندر فروغ دینے کے عمل میں مصروف ہوا جبکہ دوسری طرف اُس نے دنیا کے دوسرے خطوں تک پہنچ حاصل کرنے اور وہاں اپنے اقتصادی مفادات کو تلاش کرنے اور ان کے حصول کی حکمت عملی اختیار کی۔
ماضی بعید میں چین دنیا کے مختلف خطوں میں زمینی راستوں سے تجارت کرتا رہا تھا۔ اب ایک طرف اسی ماضی کو مزید اجالنے اور نکھارنے کے بعد قدیم راستوں کو جدید اور توسیع شدہ شاہراہوں کی شکل میں زندہ کیا جانے لگاجبکہ دوسری طرف سمندری راستوں سے بھی تجارت کے اُن نئے زرائع کو اپنی نئی اقتصادی حکمت عملی کا حصہ بنایا گیا۔ جو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے متعارف کیے تھے۔
چین کا خیال تھا کہ وہ ’وَن بیلٹ وَن روڈ‘ (OBOR)کے ذریعے دنیا بھر میں تجارت کے دو متوازی نظام وضع کرسکتا ہے جس میں ایک طرف سڑکوں کے ذریعے چین کو دنیا کے دور دراز خطوں تک جوڑ ا جاسکتا ہے جبکہ دوسری طرف سمندری راستوں سے بھی چین اور دنیا کی مختلف ساحلی علاقوں میں روابط قائم کیے جاسکتے ہیں۔ سی پیک اس سوچ کا محض ایک منصوبہ ہے جبکہ ایسے پانچ دیگر منصوبے بھی زیر تعمیر یاروبہ کار ہیں۔ بحیثیت مجموعی چھ منصوبے مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری
۲۔ چین ،منگولیا ،روس اقتصادی راہداری
۳۔ چین، وسطی ایشیا، مغربی ایشیا اقتصادی راہداری
۴۔ یوریشیا کانٹینینٹل برِج کاریڈور
۵۔ چین،ہندچینی جزیرہ نما اقتصادی راہداری
۶۔ بنگلہ دیش، چین،ہندوستان ، میانماراقتصادی راہداری
ان سارے منصوبوں کے پیچھے وَن بیلٹ وَن روڈ کا فلسفہ کارفرما ہے۔اس پورے نظام میں پاکستان کی اہمیت یہ تھی کہ اگر خنجراب سے گوادر تک کی سڑک دو طرفہ تجارتی ٹریفک کے لیے بھرپور طور پر کھُل جاتی توچین کو مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک اپنی تجارت کو پھیلانے کی نسبتاً سستی سہولت میسر آجاتی۔ خود پاکستان کو بھی چین کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دینے کا موقع ملتا۔
اس منصوبے کے دو طرفہ تجارتی مفادات کے پہلو بہ پہلو صنعتی ،زرعی اور تعلیمی فروغ کے بھی بہت سارے امکانات پر کام ہوسکتا تھا، سو شروع ہی سے ان پہلوئوں پر نظر رکھتے ہوئے بعض اہم منصوبے بنائے گئے ۔مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان کے پاس اتنے بڑے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے وسائل موجود نہیں تھے لہٰذا اس کی بھی بڑی حد تک ذمہ داری چین نے قبول کی، اربوں ڈالر چین نے پاکستان کو قرضوں کی شکل میں دینے کا وعدہ کیا ان میں بعدازاں اضافہ بھی کیا جاتا رہا۔گذشتہ دس برسوں میں بہت سے منصوبوں کی تکمیل بھی ہوئی ،جبکہ بہت سے دیگر منصوبے ہنوز زیر عمل ہیں۔
امریکی تحفظات اور ردّ عمل
سی پیک کا منصوبہ جہاں بہت سی امیدوں کو جنم دینے کا سبب بنا وہیں ابتدا ہی سے اس بات کا علم تھا کہ اس کی راہ میں دشواریاں بھی بہت حائل ہوں گی۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے وہاں کا داخلی نظام ا س نوعیت کا ہے کہ سرکاری پالیسیوں پر اگر کوئی اختلاف پایا بھی جاتا ہے تو وہ منظر عام پر نہیں آتا اور وہاں کی حکومت یکسوئی کے ساتھ ان پالیسیوں پر عملدرآمد کرتی رہتی ہے۔ چین کی حد تک اصل مسائل عالمی سطح پر مرتب ہوسکتے تھے اور وہ ہوئے بھی۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد گوکہ چین خود بھی سرمایہ دارانہ نظام کی طرف تیزی سے بڑھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس نظام کے دوسرے عالمی مراکز کے ساتھ یہ فوری طور پر ہم آہنگ بھی ہوسکتا تھا۔ چنانچہ اس امر کے منظر عام پر آنے میں دیر نہیں لگی کہ اب چین کے بڑھاوے سے متفکر ہونے والا ملک امریکہ تھا جو اب تک عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا مرکزبنا ہوا تھا۔امریکہ کو چین کی عالمی سطح پر ہونے والی کامرانیاں ،اُس کی اپنی بالادستی کے لیے ایک چیلنج محسوس ہوئیں۔
امریکی تحفظات اُس وقت زیادہ کھل کر سامنے آئے جب چین کے وَن بیلٹ وَن روڈکے منصوبے مشتہر ہوئے۔ چنانچہ امریکہ نے ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کیں،جو بڑے اور مضبوط معیشتوں کے حامل ملک تھے اُن پر امریکہ کا زیادہ زور نہیں چلا لیکن پاکستان جیسے کمزور ملک امریکی دبائو کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سی پیک کا معاہدہ جس وقت ہوا یا جب اس پر عملدرآمد شروع ہوا تو یہ وہی وقت تھا جب پاکستان،امریکہ کی سرپرستی میں چلنے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرکزی کردار ادا کررہا تھا ۔پاکستان کے فیصلہ سازوں کے لیے بہت مشکل تھا کہ امریکہ کی خوشنودی اور چین کے ساتھ نودریافت شدہ رفاقت کے درمیان توازن قائم رکھ سکتے۔
صورت یہ تھی کہ ایک کی طرف زیادہ بڑھنے سے دوسری طرف ناراضگی کا سامان پیدا ہوجاتا تھا، دوسری طرف چیزوں کو ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی تو پہلی طرف سے ناراضگی کے اشارے آنا شروع ہوجاتے ۔2013 سے 2018تک کی مسلم لیگی حکومتیں(نواز شریف،شاہد خاقان عباسی)چین کی طرف نسبتاً زیادہ مائل نظر آئیں تو اس کا خمیازہ امریکی ناراضگی کی شکل میں نکلا، تحریک انصاف کی حکومت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت سے قربت حاصل کی تو سی پیک نسبتاً پس منظر میں جاتا نظر آیا۔
حالیہ مہینوں میں جو معنوی تبدیلی صورت حال میں آئی اس کے تانے بانے بھی چین کی پالیسی ہی سے بُنے گئے ہیں۔ چین نے مشرق وسطیٰ میں غیر معمولی سفارتی کامیابی حاصل کی۔ ایران اور سعودی عرب کی دیرینہ لڑائی کو ختم کرانے اور ان کے درمیان مصالحت کرانے کا کام کرکے خطے کے آئندہ کے رخ کا بڑی حد تک تعین کردیا گیا۔ امریکہ کے بعد سعودی عرب روایتی طور پرپاکستان کا بڑاحلیف اور بڑی حد تک سرپرست رہا ہے۔سعودی عرب سے پاکستان کے عسکری روابط جہاں پاکستان کے اقتصادی فوائد سے مستفید کرتے ہیں وہیں سعودی عرب کے لیے اس کے دفاع میں غیر معمولی تعاون فراہم کرتے ہیں۔
چین اور سعودی عرب کی قربت سے پاکستان کو جہاں ایک طرف امریکی دبائو کو برداشت کرنے میں کچھ مدد ملی وہیں سعودی مالی اعانت نے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے اُس قرضے اور امداد کو بحال کرنے کا راستہ ہموار کیا جس کے بغیر پاکستان کی معیشت تقریباً ڈوبنے کے قریب پہنچ چکی تھی ۔واضح رہے کہ آئی ایم ایف کےپر بڑا اثر امریکہ کی طرف سے آتا ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کو امداد دینے کی شرط ہی یہ عائد کی تھی کہ پہلے وہ دوسرے ملکوں سے خاطر خواہ مدد حاصل کرے چنانچہ یہ مدد تین ارب ڈالر کی چین کی امداد ، دو ارب ڈالر کی سعودی عرب کی امداد اور ایک ارب ڈالر کی متحدہ عرب امارات کی صورت میں آئی، تب آئی ایم ایف نے اپنا دست تعاون دراز کیا۔ یہ وہ منظر نامہ ہے جس نے پاکستان کو نسبتاً زیادہ خود اعتمادی کے ساتھ چین کے ساتھ مزید ایک دو قدم بڑھانے کا حوصلہ فراہم کیا اور اب دونوں ملکوں کے درمیان سی پیک معاہدے کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس دوسرے مرحلے میں کیا کچھ کیا جانا مقصود ہے اس کی جو سرکاری تفصیلات بیان کی گئی ہیں، ان کے مطابق چین کے نائب وزیراعظم ،ہی لی فینگ کی پاکستان آمد کے موقع پرچھ اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ ان معاہدوں کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان بزنس ٹو بزنس کی حکمت عملی کے تحت زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔
پاکستان چین کی معاونت سے چینی معیار کے مطابق برآمدات کو یقینی بنائے گا ۔انہی معاہدوں میں، سی پیک کی مشترکہ تعاون کی کمیٹی کا قیام، ماہرین اور کارکنوں کے تبادلے کے نظام کا قائم کیا جانا اور قراقرم ہائے وے پراجیکٹ جیسا منصوبہ شامل ہیں۔ یہ سب معاہدے سی پیک کو مزید توانائی فراہم کرنے کی غرض سے بنائے گئے ہیں۔
سی پیک سے وابستہ کامیابیوں کو گوکہ مناسب طور پر قوم سے شیئر نہیں کیا گیا ہے تاہم ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ بڑی حد تک ان منصوبوں پر یا تو کام مکمل ہوچکا ہے یا تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہے۔یہ بھی امید ہے کہ بیشتر منصوبے طے شدہ وقت پر مکمل ہوجائیں گے،کم از کم دونوں حکومتوں کی طرف سے اشارے اسی سمت میں کیے جاتے رہے ہیں، البتہ سی پیک کی راہ میں جو بڑی رکاوٹیں حائل ہوئیں ان میں سے کئی رکاوٹوں کو ختم کرنے میں ہنوز کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
بیرونی دبائو کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے لیکن اندرونی طور پر بھی مختلف حلقوں کی طرف سے اس منصوبے کے اقتصادی اور سیاسی پہلوئوں پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ ایک عرصے تک ملک کے اندر ،سی پیک کی راہداری کی گزر گاہ موضوعِ بحث بنی رہی ۔ابتدا میں اس کا جو نقشہ سامنے آیا تھا وہ شمالی علاقہ جات ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے گزرنے والی شاہراہ پر مشتمل تھا ۔چنانچہ یہ طے کیا گیا کہ اس کا ایک مشرقی روٹ بھی بنایا جائے تاکہ پنجاب بھی اس کے دامن میں جگہ پاسکے۔
سندھ کو بھی گوادر کے ساتھ جوڑنے کے راستے تلاش کیے گئے۔ اس منصوبے سے کون سا صوبہ کتنا فائدہ حاصل کرے گا یہ بحث بھی مختلف صورتوں میں گذشتہ دس سال سے جاری ہے، یہی نہیں بلکہ بعض صوبوں کے اندر بھی مختلف علاقے اس شاہراہ سے مستفید ہونے کے حوالے سے اپنی اپنی سوچ رکھتے ہیں، خاص طور سے بلوچستان میں ایک عرصہ یہ موضوع زیر بحث رہا کہ سی پیک کا کتنا حصہ بلوچ علاقوں سے گزرے گا اور کتنا حصہ پختون علاقوں سے گزر کر ان کو فائدہ پہنچائے گا۔
سی پیک کے حوالے سے پاکستان میں بہت سے ادارے تحقیق اور تعلیم و تدریس کے کاموں میں بھی مصروف ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان ماہرین ، اساتذہ اور طالبعلموں کے تبادلے بھی قابل ذکر حد تک عمل میں آرہے ہیں۔ یہ ساری تحقیقی اور علمی سرگرمیاں کتنی نتیجہ خیز ثابت ہورہی ہیں، اس کے بارے میں معلومات کی کمی دامن گیر رہتی ہے۔ اچھا ہو کہ حکومت او ر متعلقہ ادارے ایک مستقل حکمت عملی کے تحت ان اداروں کی ساری کارکردگی پارلیمانی اداروں اور زرائع ابلاغ تک پہنچائیں تاکہ ان کا ناقدانہ جائزہ لیا جاسکے اور ان میں مزید بہتری پیدا کرنے کی تجاویز قوم کی طرف سے دی جاسکیں۔
8ستمبر 1958
گوادر کی پاکستانی کنٹرول میں منتقلی
مسقط و اومان کی سلطنت نے گوادر کا کنٹرول اسلامی جمہوریہ پاکستان کو منتقل کیا جس کے عوض پاکستان نے 8.4ڈالرکی ادائیگی کی۔
٭٭………٭٭
27 اگست 1982
خنجراب پاس کو چین-پاکستان ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا
قراقرم ہائی وے،جس کی تعمیر 1979میں مکمل ہوئی اُسے دو دہائیوں سے جاری تعمیر اور سیکڑوں جانوں کی قربانی کے بعدخنجراب پاس بارڈر کراسنگ پر دو طرفہ ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔چار سال بعد درۂ خنجراب غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی کھول دیا۔
٭٭………٭٭
12مئی2001
چین کی گوادر پورٹ اور مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے لیے سرمایہ فراہم کرنے پر رضامند ی
دورۂ پاکستان پر چینی وزیراعظم ژورونگجی(Zhu Rongji)نے گوادر کی بندرگاہ اور مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے پہلے مرحلے کی مالی معاونت پر اتفاق کیا جو گوادر کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے ملاتی ہے۔
٭٭………٭٭
22مارچ2002
گوادر بندرگاہ کی تعمیر کا سنگِ بنیاد
پاکستانی فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف اور چینی نائب وزیراعظم اُوو بینگوا(Wu Bangguo)نے گوادر کی بندرگاہ کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کی۔جنرل پرویز مشرف نے اس بندرگاہ کو’’چین کے لیے وسطی ایشیا کے گیٹ وے اور چین کا مغربی خطہ‘‘ قرار دیا۔
٭٭………٭٭
23مارچ2007
گوادرکی بندرگاہ پر پورٹ آف سنگاپور اتھارٹی (PSA) کے آپریشن کا آغاز
پورٹ آف سنگاپور اتھارٹی انٹرنیشنل کے گوادر بندرگاہ کے آپریشن کا افتتاح ہوا۔سنگاپور میں مقیم کمپنی کو دسمبر 2006میں بندرگاہ کا کام سونپاگیا ،جبکہ دبئی کی ڈی پی ورلڈ(DP World)کو فیورٹ سمجھا جارہا تھا ۔
٭٭………٭٭
15مارچ2008
گوادار نے بڑی تعداد میں پہلی کھیپ ہینڈل کی
گوادر بندرگاہ کوپہلی کھیپ موصول ہوئی: 72,700 میٹرک ٹن گندم جس کی گنجائش DWT 50,000سے زیادہ ہے۔ نتیجتاً کھیپ کے ایک حصے کو ایک اور بحری جہاز میں اتارنا پڑاقبل اس کے کہ وہ سمندر کی گودی میں چلی جاتی۔
٭٭………٭٭
18فروری2013
گوادر لیز کے حقوق چینی کمپنی کو منتقل
گوادر پورٹ کی لیز کے حقوق پی ایس اے انٹرنیشنل چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی جوکہ ہانگ کانگ میں رجسٹرڈ ہے ، کو منتقل کردیے گئے۔پی ایس اے اور چائنا ہاربر انجینئرنگ کمپنی(ایک اور چینی سرکاری کمپنی جوکہ 2012 میں شروع ہوئی) کے درمیان براہ راست بات چیت۔
٭٭………٭٭
22مئی2013
چین پاکستان کے درمیان ’اقتصادی راہداری ‘کی منظوری
چینی وزیراعظم لی کھا چیانگ (Li Keqiang)کے اسلام آباد دورے پر چین اور پاکستان کے درمیان ’اقتصادی راہداری‘ کی منظوری ہوئی۔لی کھاچیانگ (Li Keqiang) نئی دہلی سے دورے کے بعد اسلام آباد پہنچے تھے۔ نئی دہلی میں انہوں نے بنگلہ دیش-انڈیا-میانمار اقتصادی راہداری پر بات چیت چیت کی تھی۔
چین اور پاکستان کاسی پیک کے طویل المدتی منصوبے کی تیاری پر اتفاق
وزیراعظم نواز شریف نے چین کا سرکاری دورہ کیا۔ بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان طویل مدتی چین پاک اقتصادی راہداری منصوبے کی منظوری دی گئی۔
٭٭………٭٭
20 اپریل2015
شی جن پنگ کا پاکستان کا دورہ اور سی پیک کارسمی طور پر افتتاح
چینی صدر شی جن پنگ نے پاکستان کا دوروزہ دورہ کیا جہاں انہوں نے چین پاکستا ن اقتصادی راہداری کا رسماً افتتاح کیا۔