اگر نوازشریف حکومت نے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں ناکامی یا ڈرون حملوں کے جاری رہنے پر عمران خان کی طرف سے حکومت پر ہونے والی شدید تنقید سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے جان بوجھ کر مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے تو یقین کرلیں کہ حکومت اپنے مقصد میں کامیاب جارہی ہے کیونکہ گزشتہ دو ہفتوں سے تمام اخباری سرخیوں اور الیکٹرانک میڈیا میں اسی مقدمے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ کیا جنرل (ر) مشرف عدالت کے سامنے پیش ہوں اور کیا ان پر فرد ِ جرم عائد کی جائے گی؟کیا وہ واقعی بیمار ہیں؟کیا نوازشریف کی فوج کی اعلیٰ قیادت اور جج صاحبان کے ساتھ کوئی بات طے پاچکی ہے کہ کسی نہ کسی بہانے مشرف کو ملک سے باہر بھجوادیا جائے تاکہ وہ کسی کے لئے بھی پریشانی یا ندامت کا باعث نہ بنیں؟
یہ بات شریف برادران نے تواتر سے کہی تھی کہ وہ جب بھی اقتدار میں آئے، وہ مشرف کو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت عدالت کے کٹہرے تک لے کر جائیں گے کیونکہ مشرف نے بطور آرمی چیف 1999ء میں ان کی حکومت کا تختہ الٹا، اُنہیں منصب سے ہٹایا، گرفتار کیا اور پھر جلا وطن کرکے سعودی عرب اور برطانیہ بھجوادیا۔ اسی طرح سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے رفقاء جج صاحبان بھی جنرل مشرف کے خلاف کارروائی چاہتے تھے کیونکہ جنرل مشرف نے 2007ء میں ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے اُنہیں معزول کردیا تھا۔ اس تمام معاملے میں دلچسپی کی بات یہ ہے کہ شریف برادران کو 2008ء میں عام انتخابات میں حصہ لینے میں کوئی رکاوٹ مانع نہیں ہوئی اور نہ ہی اُنہیں اُس پارلیمنٹ کا حصہ بننے میں کوئی حرج محسوس ہوا جس کا وجود جنرل مشرف کی ایمرجنسی کے نفاذ اور بعد میں پیش آنے والے واقعات کی بدولت ممکن ہوا تھا۔ بالکل اسی طرح افتخار محمد چوہدری کو بھی 1999ء کے شب خون کی توثیق کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ نہ تو شریف برادران اور نہ ہی جج صاحبان نے کبھی جنرل مشرف کے دست ِ راست اور معاونین، جو ان واقعات میں شامل تھے، کا احتساب، جیسا کہ قانون کا تقاضا ہے، کرنے کی بات کی ہے۔ مختصر یہ کہ یہ غداری کیس آئین کے تحفظ اور سربلندی (بقول نوازشریف) کے لئے نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد مستقبل میں دفاعی اداروں کی طرف سے کسی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے خدشے (بقول جج صاحبان) کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ہے بلکہ اس سے شریف حکومت اور عدلیہ کی طرف سے حساب برابر کرنے کے لئے انتقامی کارروائی کا تاثر ملتا ہے۔ جنرل مشرف کے پاکستان واپس آنے کے محرکات بالکل واضح ہیں۔ دراصل اُنہیں ٹوئٹر اور فیس بک پر اپنے کروڑوں مداحوں کی تعداد نے مغالطے میں ڈال دیا۔ اس کے علاوہ اپنی کتاب کی فروخت اور مغربی ممالک میں لیکچرز کے ذریعے لاکھوں ڈالر کماتے ہوئے وہ اس خوش گمانی میں مبتلا ہوگئے کہ وہ اپنے ملک اور بیرونی ممالک میں انتہائی مقبول بلکہ ناگزیر سیاسی شخصیت بن چکے ہیں چنانچہ اُنہوں نے اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی اور یہ توقع کرتے ہوئے وطن واپس آگئے کہ لاکھوں کا ہجوم ان کے استقبال کے لئے چشم براہ ہوگا تاہم جو کچھ ہوا وہ سابقہ کمانڈو کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ان پر بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی کے قتل اور لال مسجد میں موجود جہادیوں کی ہونے والی ہلاکتوں کا الزام لگا کر مقدمہ قائم کر دیاگیا۔ اس کے علاوہ ان پر 2007ء میں چیف جسٹس آف پاکستان اور ان کے ساتھی جج صاحبان کو معزول کرنے کا بھی الزام لگا۔ وہ سیکورٹی کے خدشے کے پیش ِ نظر بکتر بند گاڑیوں میں ایک عدالت سے دوسری عدالت تک جاتے ہوئے دکھائی دیئے چنانچہ انتخابات کی تیاری نہ کر سکے۔ جب اُنہوں نے دیکھاکہ تمام معاملات الجھ گئے ہیں چنانچہ اب پاکستان سے کھسک جانے میں ہی عافیت ہے تو حکومت نے ہوشیاری سے کام لے کر اُن پر غداری کا مقدمہ قائم کردیا۔ اس پیشرفت پر مشرف کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور انہوں نے فوج کی اعلیٰ قیادت اور دوست عرب ممالک سے مدد کی درخواست کی کہ وہ ان ’’چالاک سیاست دانوں‘‘ سے اُن کے بچائو کا سامان کریں لیکن وہ ایسا کرتے ہوئے بھول گئے کہ سابقہ آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا، سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی اور خلیجی ممالک کی اہم شخصیات نے اُنہیں مشورہ دیا تھاکہ وہ پاکستان واپس جانے کی غلطی نہ کریں۔ اس وقت’’ مشرف کو پاکستان سے نکالو‘‘ آپریشن پورے زوروں پر ہے جبکہ نوازشریف نے تمام تر ذمہ داری خصوصی عدالت اور فوج کے سپرد کرتے ہوئے خود کو بظاہر اس معاملے سے الگ کر لیا ہے کیونکہ اُنہیں ریمنڈ ڈیوس معاملہ یاد ہے کہ جب اُنہیں پہلے تو آئی ایس آئی نے ریمنڈ ڈیوس کو پنجاب میں بند رکھنے کا مشورہ دیا اور جب ملک میں امریکہ مخالف جذبات کا طوفان کھڑا ہو گیا تو پھر اُسے رات کی تاریکی میں چپکے سے نکال کر ملک سے اس طرح فرار کرادیا کہ میڈیا کو بھی اس کی بھنک نہ پڑسکی۔اس مرتبہ، جیسا کہ کہا جاتا ہے’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘، اُنہوں نے نہایت احتیاط سے معاملے سے خود کو لاتعلق کرتے ہوئے گیند عدالت کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ اس مرتبہ دفاعی ادارے اس کوشش میں ہیں کہ میڈیا کی عقابی نظروں سے بچ کر کچھ قدم اٹھائیں۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شریف برادران سابق آرمی چیف کے خلاف غداری کا مقدمہ شروع کرکے تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں کیونکہ یہ اقدام سول حکومت اور دفاعی اداروں کے درمیان کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے تاہم یہ خدشہ درست نہیں کیونکہ فوج اپنے مفاد میں کام کررہی ہے لیکن وہ سابق چیف کو بچانے کے لئے شریف حکومت کے خلاف نہیں ہے۔ فوج کم از کم یہ نہیں چاہے گی کہ یہ مقدمہ طول پکڑے اور اس کے پھیلائو میں اتنا اضافہ ہوجائے کہ دیگر فوجی آفیسرز بھی اس کی زد میں آجائیں۔ اس وقت تک کوئی بھی اُس پنڈورا بکس کو نہیں کھولنا چاہتا کہ جس کی وجہ سے 1999ء کے شب خون اور 2007ء کی ایمرجنسی کے معاونین کی گردن بھی اس کیس میں پھنس جائے چنانچہ یہ کارروائی اس کے خلاف ہے جس نے سب کے لئے مسائل کھڑے کئے۔ نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی اتنا ابلاغ کرلیتے ہیں جتنا چند ماہ پہلے جنرل اشفاق کیانی روا رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان قدرے خاموش ہیں اور گجرات کے چوہدری اور ایم کیو ایم، جو مشرف دور میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے، مشرف کے پیچھے کھڑے ہیں۔غداری کے اس مقدمے کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا جو میمو گیٹ کیس کا ’’انجام‘‘ ہوا تھا۔