ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر ساحرلدھیانوی 8مارچ 1921ء کو لدھیانہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ خالصہ اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے میں داخلہ لیا۔ کالج کے زمانے سے ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کر دیا۔ امرتا پریتم کے عشق میں کالج سے نکالے گئے اور لاہور آ گئے۔ یہاں ترقی پسند نظریات کی بدولت قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں ان کے خلاف وارنٹ جاری ہوئے جس کے بعد وہ ہندوستان چلے گئے۔
ساحر کتنے بااثر فلمی شاعر تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کم از کم دو ایسی انتہائی مشہور فلموں کے گانے لکھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی کہانی ساحر کی اپنی زندگی سے ماخوذ تھی۔ ان میں گرودت کی پیاسا اور یش راج کی کبھی کبھی شامل ہیں۔ پیاسا کے گانے تو درجہ اول کی شاعری کے زمرے میں آتے ہیں:
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
اور یہ گانا:
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
اسی طرح کبھی کبھی میں "کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے" کے علاوہ "میں پل دو پل کا شاعر ہوں" ایسے گانے ہیں جو صرف ساحر ہی لکھ سکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ کسی اور فلمی شاعر کو یہ چھوٹ نہیں ملی کہ وہ اپنے حالاتِ زندگی پر مبنی نغمے لکھے۔ ذیل میں ساحر کی محبتوں کے حوالے سے مختصراً نذر قارئین۔
چلو اک بار پھر سے اجنبی ہوجائیں ہم دونوں
ساحرلدھیانوی اور سدھا ملہوترہ
ساحر لدھیانوی کے جب لتا منگیشکر کے ساتھ اختلافات ہو گئے تو ساحر نے ایک نئی گلوکارہ سدھا ملہوترہ کی طرف ہاتھ بڑھانا شروع کیا۔ اسی دوران سدھا ملہوترہ سے ان کے عشق کی داستانیں عام ہونے لگیں اور دونوں شادی کے لئے راضی بھی ہو گئے، مگر سدھا ملہوترہ کے والدین اس شادی کے خلاف تھے، انہوں نے سدھا کی شادی دوسری جگہ طے کردی۔
سدھا ملہوترہ کی ضد پر ہی ساحر اس کی منگنی میں شریک ہوئے اور انہوں نے وہاں بھری محفل میں اپنی مشہور نظم "خوبصورت موڑ (چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں) سنائی، جسے سن کر سدھا ملہوترہ دلہن بنی زار وقطار روتی رہی۔ ذیل میں ساحر کی نظم ملاحظہ کریں:
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دلنوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
تعارف روگ ہو جائے تو اس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے تکمیل تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ، دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
تو ہی بتا کہ اب میں پکاروں کسے یہاں
ساحر کی پہلی محبت ،ان کی کالج فیلو، مہندر چوہدری تھیں ۔ وہ عین عنفوانِ شباب میں تپِ دق میں مبتلا ہو کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئی تھیں، اس وقت تپ دق لاعلاج مرض تھا۔ ان کی وفات پر ساحر دلبرداشتہ ہو کر بمبئی سے لاہور منتقل ہوگئے، جو علم و ادب کا گہوارہ تھا، اس وقت ساحر ۱۸ سال کے تھے۔ ساحر لدھیانوی نے اپنی پہلی محبت، مہندر چوہدری کی مرگِ ناگہانی پر ایک طویل نظم “ مرگھٹ کی زمین سے” کے عنوان سے لکھی ذ یل میں اس نظم سےکچھ اشعار قارئین کی نذر۔
کوثر میں وہ دھلی ہوئی بانہیں بھی جل گئیں
جو دیکھتیں مجھے، نگاہیں بھی جل گئیں
امبر س شت گیسؤِشب گوں بھی جل گئے
وہ دیدہ ہائے مست پر اُفسوں بھی جل گئیں
معصوم قہقہوں کا ترنم بھی مٹ گیا
جھیپنی ہوئی نظم کا تبسم بھی مٹ گیا
یہ دوپہر کی دھوپ یہ ویران آسماں
تو ہی بتا کہ اب میں پکاروں کسے یہاں