سائفر کیس کی اٹک جیل میں سماعت کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی جس کے دوران ایف آئی اے کے وکلاء نے 1 ہفتے کی مہلت مانگ لی جبکہ عدالت نے وکیل کو چیئرمین پی ٹی آئی سے اٹک جیل میں ملاقات کرانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق سماعت کر رہے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف سے وکیل شیر افضل مروت عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
ایف آئی اے کے وکلاء نے جواب جمع کرانے کے لیے عدالت سے 1 ہفتے کی مہلت مانگ لی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے کے وکلاء نے ٹرائل کورٹ میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست پر فیصلے تک ضمانت پر فیصلہ نہیں ہو سکتا، اب یہ تاریخ لے کر ٹرائل کورٹ کے سامنے ایک بار پھر یہی مؤقف اپنائیں گے۔
ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء نے ٹرائل کورٹ میں یہ تاثر دیا کہ وہ ہائی کورٹ سے درخواست واپس لے لیں گے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سماعت کا مقام تبدیل کرنے کے نوٹیفکیشن پر 30 اگست کی تاریخ تھی، سوال یہ ہے کہ اگلی سماعت بھی جیل میں ہو گی یا نوٹیفکیشن صرف ایک سماعت کے لیے تھا؟ چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر عدالت ایف ایٹ کچہری سے جوڈیشل کمپلیکس منتقل کی گئی، وزارتِ داخلہ متعلقہ وزارت بنتی ہے، وزارتِ قانون نے یہ نوٹیفکیشن کیسے جاری کیا؟
چیف جسٹس نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کیسز میں روسٹرم پر رش کیوں کرتے ہیں؟ دیگر وکلاء بیٹھ جائیں، سلمان صفدر اور شیر افضل مروت صرف روسٹرم پر رہیں، دوسری سائیڈ سے بھی اضافی وکلاء بیٹھ جائیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے استدعا کی کہ آئندہ سماعت کے لیے کوئی نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روک دیا جائے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم نے آئندہ تاریخ سے پہلے یہاں کیس سماعت کے لیے رکھ لیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ وہ 12 کی بجائے 10 ستمبر کو ہی نوٹیفکیشن جاری کر دیں گے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ تو جاری کرنے دیں، اس سے کیا فرق پڑے گا، آئندہ سماعت پر عدالت کو بتانا ہو گا کہ وزارتِ قانون نے کس اختیار کے تحت نوٹیفکیشن جاری کیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ اس درخواست کی وجہ سے ہماری ضمانت کی درخواست نہیں سن رہی، اب اس وجہ سے چیئرمین پی ٹی آئی کو مزید 6 دن جیل میں رہنا پڑے گا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں اس حوالے سے آرڈر کر دیتا ہوں کہ ہائی کورٹ میں اس درخواست سے کوئی فرق نہیں پڑتا، صرف متعلقہ وکلاء روسٹرم پر رہیں باقی سب پیچھے جا کر بیٹھ جائیں، ٹرائل کورٹ پر اِس درخواست کی وجہ سے کوئی پابندی نہیں، ٹرائل کورٹ پر پابندی تب ہوتی جب ہائی کورٹ اسے کارروائی آگے بڑھانے سے روک دیتی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اٹک جیل میں بی کلاس ہی نہیں ہے، یہ صرف تکلیف دینے کے لیے کیا جا رہا ہے، حکام کہتے ہیں کہ سیکیورٹی کی وجوہات کی بنا پر اٹک جیل میں رکھا گیا ہے، اڈیالہ جیل زیادہ محفوظ ہے یا اٹک جیل، یہ سب کو معلوم ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو رات کو نیند نہیں آتی، انہیں جہاں رکھا گیا وہاں چھت نہیں، پانی گرتا ہے، مکھیاں ہیں، اڈیالہ جیل میں سیکیورٹی انتظامات بہتر ہیں، بی کلاس بھی موجود ہے، ہمارا حق ہے کہ ہمیں اڈیالہ جیل منتقل کر کے بی کلاس فراہم کی جائے، بشریٰ بی بی جیل میں ملنے گئیں تو ان پر بھی مقدمہ بنانے کی کوشش کی گئی، الزام لگایا گیا کہ بشریٰ بی بی نے جیل اہلکار کو 20 ہزار روپے رشوت دینے کی کوشش کی، سپرنٹنڈنٹ جیل نے میرے خلاف ایف آئی آر کرائی کہ میں نے اسے مارا ہے۔
اس موقع پر ڈسٹرکٹ جیل اٹک کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ جیل میں اے اور بی کلاس ختم کر دی گئی ہے، جیل میں اب عام اور بیٹر کلاسز موجود ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں بیٹر کلاس دی گئی ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اگر بیٹر کلاس کا یہ حال ہے تو عام کا کیا ہو گا؟
اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں جو مسائل تھے وہ دور کر دیے گئے ہیں، باتھ روم کا مسئلہ تھا، اس کی دیواریں اونچی کر کے سفیدی کرا دی گئی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو بیڈ، کرسی، 21 انچ ٹی وی، 5 اخبار فراہم کیے گئے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کو کھانا بھی ان کی مرضی سے دیا جاتا ہے، ان کے لیے 5 ڈاکٹر تعینات کیے گئے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کو 2 دن چکن اور مٹن دیسی گھی میں بنا کر دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سائفر کیس میں تو وہ انڈر ٹرائل ملزم ہیں، کیا دورانِ ٹرائل بھی جیل تبدیل ہو سکتی ہے؟ ٹرائل تو اسلام آباد میں ہونا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل ہونے کے بعد اٹک جیل میں رکھنے کا کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے تو آگاہ کریں، آپ نے یہ ساری باتیں بتائیں لیکن درخواست گزار کا بنیادی اعتراض کچھ اور ہے، ٹرائل کورٹ نے اڈیالہ جیل میں رکھنے کا کہا تو اٹک جیل منتقل کیوں کیا گیا؟ کیا اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھنے کی درخواست کی؟
اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ آئی جی کے پاس کسی بھی قیدی کو ایک سے دوسری جیل منتقل کرنے کا اختیار ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اسلام آباد کی اپنی کوئی جیل نہیں تو قیدیوں کو اڈیالہ جیل میں رکھا جاتا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ جب یہ درخواست دائر کی گئی تب چیئرمین پی ٹی آئی کو سزا ہوئی تھی، چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا اب معطل ہو چکی اور ضمانت مل چکی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کا دورانِ حراست اسٹیٹس اب تبدیل ہو چکا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی اس وقت سزا نہیں کاٹ رہے، چیئرمین پی ٹی آئی ایک اور انڈر ٹرائل کیس میں حراست میں ہیں، اسلام آباد کے انڈر ٹرائل قیدیوں کو اڈیالہ جیل میں ہی رکھا جاتا ہے، اگر اٹک سے اٹھا کر کوٹ لکھپت لے جاتے ہیں تو کیا ہر پیشی پر لایا جا سکتا ہے؟ کوٹ لکھپت سے تو پانچ چھ گھنٹے کا سفر ہے، اٹک جیل سے اسلام آباد کا سفر کتنا ہے؟
اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ اٹک سے اسلام آباد کا ڈیڑھ گھنٹے کا سفر ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جس گاڑی میں یہ لاتے ہیں اس میں دس پندرہ منٹ زیادہ ہی لگتے ہوں گے، کیا سزا معطل ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھنے کا کوئی فیصلہ ہوا؟ میں اس درخواست پر آرڈر جاری کروں گا۔
اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ میں اس حوالے سے ہدایات لے کر آگاہ کر سکتا ہوں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ مجھے چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ شیر افضل صاحب کو ملاقات کرنے دیں اور یقینی بنائیں کہ کوئی ناخوش گوار واقعہ نہ ہو۔
اس موقع پر توہینِ عدالت کی درخواست پر پنجاب حکومت کی جانب سے جواب جمع کرا دیا گیا۔
عدالت نے جیل حکام کو شیر افضل مروت کی چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کرانے کا حکم دے دیا۔