• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چینی ایکسپورٹ کرنے کی حد تک پاکستان دنیا میں اس کی بہترین پیداوار کا حامل ملک ہے جو نہ صرف 25کروڑ آبادی کی غذائی ضرورت پوری کرنے کی استعداد رکھتا ہے بلکہ فاضل پیداوار سے کثیر زرمبادلہ بھی حاصل کرتا ہے۔ڈالر اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں او ر ان کی نقل و حمل غیرقانونی اور معیشت کے متوازی نظام کے دائرہ کار میں آجانے سے موقع پرست عناصر کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں مصنوعی قلت پیدا کرکے چار سال قبل 35اورگزشتہ ماہ 100روپے فی کلو ملنے والی چینی اس وقت ملک کے طول و عرض میں 180روپے اور اس سے زیادہ میں فروخت ہو رہی ہے۔ اگر یہ صورت حال برقراررہی تو حکومت کثیر زرمبادلہ خرچ کرکے مہنگی پیداوار درآمد کرنے پر مجبور ہوگی اور اس کے دام مزید بڑھ جائیں گے۔ موجودہ کیفیت میں گزشتہ چند دنوں میں ذخیرہ اندوز اور اسمگلر مافیا اربوں روپے کما چکا ہے۔ عام آدمی جو پہلے ہی بجلی، پٹرول اور اشیائے ضروریہ کی کمرتوڑمہنگائی سے بے حال ہے ، اب وہ مہنگی چینی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ اس کا اثر مٹھائی، بیکری کے سامان اور مشروبات پر بھی پڑا ہے جن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی ہدایت پر صوبائی حکومتیں اصل حقائق تک پہنچنے کے لئے کوشاں ہیں۔ شوگر ملوں کا مرکز سمجھے جانے والے صوبہ پنجاب کی نگران حکومت نے چینی مہنگا ہونے کی وجہ عدالت عالیہ کے حکم امتناعی کو قرار دیا ہے۔ حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چار مئی اور یکم اگست 2023کو جاری کردہ حکم امتناعی سے چینی کی قیمتوں میں اضافے کی راہ ہموار ہوئی۔ پنجاب حکومت نے مل مالکان ،سٹہ بازوں اور بروکرز کے گٹھ جوڑ کو قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیا ہے جس سے ان کے بقول اب تک یہ لوگ 55سے 56ارب روپے اضافی کما چکے ہیں اور چینی کی صورت حال سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ صوبائی حکومت نےحکم امتناعی فوری طور پر ختم کئے جانے کے بارے میں عدالتی چارہ جوئی شروع کردی ہے تاکہ اس کی روشنی میں قانون کو حرکت میں لاتے ہوئے ذمہ دار افراد کے خلاف تادیبی کارروائی اورذخیرہ کی گئی چینی مارکیٹ میں لائی جاسکے۔ صوبائی نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کو پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق حکم امتناعی کی وجہ سے حکام چینی کی نقل و حرکت اور بلوچستان کے راستے اس کی افغانستان اسمگلنگ پر نظر رکھنے سے قاصر ہیں۔ صوبائی سیکرٹری خوراک کے مطابق حکم امتناعی نے شوگر ملوں کے ریکارڈ کے حصول کو روک دیا ہے جس سے ذخیرہ اندوزوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ حکم امتناع خارج ہونے سے متعلقہ صوبائی محکموں کے علاوہ خفیہ اداروں کو کارروائی کرنے کا قانونی جواز میسر آسکے گا اور قانون شکن افراد کی پکڑ دھکڑ ممکن ہوسکے گی تاہم ذخیرہ کی گئی چینی جس کا حجم ملک کی مجموعی طلب سے زیادہ ہے، مارکیٹ میں آجانے سے قیمتوں کا معمول پر آنا ضروری ہے ۔چینی کی مصنوعی قلت کے پیچھےاس کی درآمد کا جواز پیدا کرنا اس کھیل کا حصہ ہے جس سے نہ صرف ملک کا قیمتی زر مبادلہ صرف ہوتا ہے بلکہ اس شعبے سے وابستہ افراد میں موجود موقع پرست افرادکے متحرک ہوجانے سے مارکیٹ میں آنے والی پیداوار مقررہ قیمت پر اس کے باوجود فروخت نہیں ہوپاتی۔ دوسری طرف اسمگلرز مافیا اس قدر منظم اور طاقتور ہوچکا ہے کہ وہ ہر ایک کےبعد دوسری اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت پیدا کرکے ملک میں معاشی افراتفری پیدا کر رہا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس حوالے سےمتفقہ لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ غریب عوام کی پریشانیوں سے کھیلنے والے افراد اور بدعنوان سرکاری اہل کار کسی رورعایت کے مستحق نہیں۔انکے خلاف ضابطے کی کارروائی بہرحال ضروری ہے۔

تازہ ترین