• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلیم احمد ہمارے ادب کی تہذیب و تنقید کے اُن معدودے چند ناموں میں سے ایک ہیں جن کے پورے کام میں ایک منطقی ربط اور فکری تسلسل بخوبی اور باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کا تخلیقی اور تنقیدی کام مختلف جہات رکھتا ہے، لیکن جب ہم اُن کے پورے ادبی کیریئر کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں آتا جہاں ہمیں ان کے افکار و نظریات باہم متصادم دکھائی دیں یا اُس مرکزی قوت کے دائرے سے باہر نکلتے نظر آئیں جو اُن کے تخلیقی و فکری جوہر کا منبع ہے۔ 

فکرو نظر کا یہ تسلسل و ارتباط صرف ہمارے عہد کے ادب ہی میں انفرادیت اور مثال کا درجہ نہیں رکھتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پورے اردو ادب کی تاریخ میں بھی ایسی مثالیں کم کم ہی نظر آتی ہیں، اس میں خاص لطف کی بات یہ ہے کہ ،سلیم احمد کا تخلیقی و تنقیدی کام مقدار کے اعتبار سے بھی خاصے وقیع سرمائے پر محیط ہے، لیکن جس شعبے کی طرف چاہے نگاہ کیجیے، آپ کو احساس کی ایک رَو اور فکر کا ایک ہی سلسلہ کارفرما نظر آئے گا۔

سلیم احمد ادب کو ایک تہذیبی قدر گردانتے ہیں۔ تہذیب کا قصہ یہ ہے کہ اس کی چھوٹی سے چھوٹی سرگرمی سے لے کربڑے سے بڑے مظاہر تک ہر جگہ ہمیں ایک اصولِ حقیقت اور ایک تصورِ حیات کارفرما ملتا ہے۔ سرِدست ہم آج ان کی تنقید کو حوالے اور مثال کے طور پر پیشِ نظر رکھیں گے۔ آپ ’’ادبی اقدار‘‘، ’’نئی نظم اور پورا آدمی‘‘، ’’غالب کون‘‘ سے لے کر ’’اقبال ایک شاعر‘‘ اور ’’اسلامی نظام، مسائل اور تجزیے‘‘ تک اُن کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر پڑھ لیجیے، صاف محسوس ہوگا کہ اس کے پیچھے ایک ایسا ذہنی رویہ موجود ہے جو انسانی زندگی، اس کے جملہ مظاہر اور اس پورے کائناتی نظام کو ایک اصولِ حقیقت کے تحت دیکھتا ہے اور اس کے کسی بھی پہلو یا رویے پر کلام کرتے ہوئے اس اصول کو کبھی فراموش نہیں کرتا۔

سلیم احمد کو قدرت نے جو ذہن ودیعت کیا تھا، وہ آغازہی سے بے حد واضح، نکتہ رس اور براہ راست پہنچ کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا تھا۔ دوسری بات اُن کے یہاں کسی نکتے یا مسئلے کی بحث میں سامنے آنے والے سوالوں کا سلسلہ بھی توجہ طلب ہے۔ لکھنے والوں نے ان کی بابت لکھا ہے کہ ،ان کے یہاں جو پے در پے سوالوں کا سلسلہ نظر آتا ہے، اس کا سبب ان کا تخلیقی اضطراب ہے۔ اُن کا ذہن افکار و خیالات کی دائم آباد آماج گاہ تھا۔ اُن کے قریبی احباب اور صحبت دار اُن کے یہاں ہمہ وقت جاری رہنے والے سوچ بچار اور مکالمے کے عمل کا خصوصیت سے تذکرہ کرتے ہیں، غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلسل غور و فکر کی ریاضت نے صرف ان کے ذوق کی تشکیل ہی نہیں کی تھی بلکہ فہم و ادراک کی صلاحیت کو بھی بدرجہا بڑھا دیا تھا۔ 

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلسل سوچ بچار اور ہمہ وقت ظاہر و باطن میں جاری مکالمے کے اس عمل نے ان کی ذہنی ساخت میں بھی ایک کردار ادا کیا تھا اور اسے کچھ ایسا بنا دیا تھا کہ کسی ادب پارے یا نظری مسئلے کا مطالعہ کرتے ہوئے وہ اس کے پس منظر میں کام کرنے والے محرکات اور رویوں تک کا سراغ پالیتے تھے۔ وہ کسی خیال، نظریے، رجحان یا مسئلے پر جب بات کرتے ہیں تو صرف اسی تک محدود نہیں رہتے، بلکہ اُن کی گفتگو میں اس حوالے سے پورا ایک سلسلۂ خیال روشن ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہم یہاں صرف دومثالیں پیش کرنے پر اکتفا کریں گے، ایک ’’نئی نظم اور پورا آدمی‘‘ اور دوسرے ’’اقبال ایک شاعر۔‘‘ اوّل الذکر ایک تنقیدی تھیوری کے ساتھ اُن کے افکار و نظریات کو پیش کرتی ہے۔ 

سلیم احمد کے مطابق،دورِحاضر سے پہلے ہماری تہذیب ایک ہم آہنگ اکائی تھی، جس کا مرکزی استعارہ عشق تھا۔ یہ ایک ایسا مرکز تھا جو ذات اور شخصیت کے سارے عناصر کو سمیٹے رہتا تھا، ایک ایسے مقناطیس کی طرح جو بکھرے ہوئے ذرّوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اس طرح انسان کا پورا وجود ایک نظامِ کشش کے تحت مربوط ہوجاتا تھا اور اُس کی تمام چھوٹی بڑی سرگرمیاں باہم مرتب ہوکر ایک ہم آہنگ کُل کی تشکیل کرتی تھیں، یہی مقناطیس معاشرے اور فرد کو جوڑ کر ایک وسیع تر وحدت قائم کرتا تھا۔

سلیم احمد کا کہنا ہے کہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے بعد ہماری روایتی تہذیب جو پورے آدمی کی تہذیب تھی، مغربی تہذیب کے اثرات کی زد میں آکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی اوراس کے ساتھ ہی پورا آدمی بھی کسری آدمی میں تبدیل ہوگیا،جس کی مختلف شکلیں اُنھوں نے ہمیں سو، سوا سو سال کے شعری ادب میں پورے آدمی کے تقابل میں رکھ کر دکھائی ہیں۔

دوسری کتاب ’’اقبال— ایک شاعر‘‘ میں سلیم احمد، اقبال کی شاعرانہ فکر کے بنیادی مسئلے کا تعین کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خودی ہو یا عشق، قوت ہو یا عمل اور حرکت و تغیر، ان کے تمام موضوعات کا سرچشمہ موت کا خوف ہے۔ لیکن مطلب اس کا یہ نہیں کہ اقبال موت کے شاعر ہیں بلکہ شاعر تو وہ زندگی ہی کے ہیں مگر اُن کے یہاں زندگی کے تمام مظاہر کی اہمیت کا تعین اور اُس کی طرف انسانی رویے کی جس نوعیت کا اظہار ہوتا ہے، وہ موت کا سامنا کرنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ 

چناںچہ اُن کی کتاب ’’اقبال ایک شاعر‘‘ میں فکرِ اقبال کا جو اشاریہ ملتا ہے وہ ہمیں اُس دماغ کا احوال سناتا ہے جسے مشرقی و مغربی افکار کے متوازی خطوط اور متضاد سمتوں میں سفر کرتے ہوئے دھارے اپنے ساتھ بہا کر نہیں لے جاتے بلکہ اُسے موت کے چیلنج کا سامنا کرنے کی ہمت و جرأت عطا کرتے ہیں۔ اب یہ بات بالکل الگ ہے کہ ہم سلیم احمد کی تنقید کے حاصلات سے اتفاق نہ کریں یا ان کے اخذ کردہ نتائج کو کلیتاً تسلیم نہ کریں بلکہ اُن کے لیے ردّ و قبول کے دو الگ دائرے بنالیں ،تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خود سلیم احمد اختلافِ رائے کو بڑی بابرکت شے مانتے تھے۔ چناںچہ اُن کی تنقیدی آرا سے اختلاف میں کچھ مانع نہیں ہے، شرط بس یہ ہے کہ اس کی بنیاد کسی علمی، ادبی یا فکری نکتے پر ہونی چاہیے اور اخلاصِ نیت کے ساتھ ہونی چاہیے۔ 

ہمیں اس امر کے اعتراف میں بھی باک نہیں کہ سلیم احمد کے یہاں واقعتا اختلافِ رائے کے جتنے مواقع پیدا ہوتے ہیں، اردو کے کسی دوسرے نقاد کے یہاں نہیں ہوتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اُنھوں نے ادب و تہذیب کے عام مظاہر کو ایک اصولِ حقیقت کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی جو کوشش کی ہے وہ رسمی نوعیت کی نہیں ہے بلکہ بنے بنائے سانچوں کو توڑ کر نئے پہلو اور نئے زاویے بناتے ہوئے سامنے آتی ہے۔ ظاہر ہے یہ کام سکہ رائج الوقت نہیں، لہٰذا اس سے اختلاف کے مواقع تو قدم قدم پر آئیں گے۔ خیر، ہم سلیم احمد سے اتفاق کریں یا اختلاف، اتنی بات بہرحال طے ہے کہ ان کی تنقید ہمیں ایک سنجیدہ فکری ڈسکورس پر اُکساتی ضرور ہے۔

اس کے اسباب تو کئی ہیں لیکن ایک اہم سبب ان کی تنقید کے رگ و ریشے میں سرایت کی ہوئی انسانی احساس کی وہ شدت اور سچائی ہے جو تہذیب کی تشکیل و تعمیر ہی نہیں قلبِ ماہیت کا جوہر بھی رکھتی ہے۔ یہ سلیم احمد کی تنقید کا وہ اہم تر پہلو ہےجس کو سامنے رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ادب اور تہذیب کے باب میں تنقید کے اسی کردار کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ احساس کو تجربہ بنانے اور تجربے کو فکری بصیرت کے سانچے میں ڈھالنے کی جو قابلِ رشک قدرت ہمیں سلیم احمد کے یہاں نظر آتی ہے، وہ اردو تنقید میں بڑی کم یاب شے ہے، یہی وہ وصف ہے جو سلیم احمد کی تنقید کو تخلیقی لحن عطا کرتا ہے ایسا تخلیقی لحن جس میں ہمیں مشرق کی روح گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔ 

مشرق سلیم احمد کے فکر و نظر کا ایک بے حد بلیغ حوالہ ہے،جوان کے لیے ایک جغرافیائی خطے سے بڑھ کر ایک ایسی فکری ہستی کا درجہ رکھتا ہے جسے انسان اوراس کی تہذیب کےروحانی اور مابعدالطبیعیاتی عناصر کا ترجمان کہا جاسکتا ہے۔ یہی وہ حوالہ ہے جو سلیم احمد کے یہاں ادب کی دائمی اقدار کا سوال اٹھاتا ہے، اُن کی نگاہ کو ادب میں جمالیاتی اور اخلاقی رویوں کی تلاش و جستجو پر مامور کرتا ہے ، انھیں انسان کی باطنی صورتِ حال کو جانچنے، پرکھنے اور سمجھنے کی تحریک دیتا ہے۔ ’’ادبی اقدار‘‘ کے مضامین سے لے کر ’’اسلامی نظام، مسائل اور تجزیے‘‘ تک دیکھ لیجیے، آپ کو صاف اندازہ ہوگا کہ سلیم احمد کا سارا کا سارا تنقیدی سفر انھی بنیادی عوامل و عناصر کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ اردو کے بیشتر نقادوں کی طرح وہ تنقید کو محض کھرے کھوٹے کی پہچان کی کسوٹی نہیں بناتے بلکہ اس سے اپنی تہذیب اور اس کی اعلیٰ اقدار کی تشکیل، تعمیر اور تفہیم کا کام لینے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔

ایسا لگتاہے جیسے سلیم احمد کی تنقید ایک طرح کے shock treatment کا مزاج رکھتی ہے۔ موضوعات، عنوانات اور مسائل ہی سے نہیں خود سلیم احمد کی لفظیات اور فقروں کی ساخت بلکہ بیانیہ کی تکنیک تک سے اس کی گواہی ملتی ہے۔ ان کی تنقید کے اس مزاج نے ادب و تنقید کے روایتی انداز پر اصرار کرنے والے لوگوں کو اکثر برہم کیا۔ لیکن سلیم احمد نے اپنی تنقید کا یہ مزاج آخری دم تک برقرار رکھا۔ 

یوں تو ہر نقاد کے باطن میں ایک جراح بھی چھپا ہوتا ہے، جو ادب کے فاسد مادّوں کی نشان دہی کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ بوقتِ ضرورت انھیں نکالنے کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے لیکن سلیم احمد کے اندر موجود یہ جراح نہ صرف زیادہ فعال اور سرگرم رہتا بلکہ اس نے اپنا کام بھی خاصا بڑھالیاتھا۔

اس کا اہم ترین سبب وہ موضوعات و مسائل ہیں جنھیں ،سلیم احمد نے اپنے فکری اور اصولی حوالے کے طور پر ہمیشہ مدِنظر رکھا۔ ظاہر ہے اس قسم کی صورتِ حال میں نقادکے حصے میں الزامات بھی زیادہ ہی آیا کرتے ہیں۔ سلیم احمد کے تنقیدی اسلوب کا دوسرا اور اہم ترین وصف آئینے کی مثال صاف شفاف اور دریا کی طرح رواں دواں بیانیہ ہے۔ 

ادب کے زمینی مسائل اور انسان کے ذہنی و جذباتی رویوں سے لے کر دائمی اقدار اور مابعد الطبیعیاتی حوالوں تک دو ٹوک اور راست گفتگو میں جو بے پناہ قدرت سلیم احمد کو حاصل ہے، اس پر رشک تو ضرور کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی تقلید خاصا مشکل کام ہے۔ یہ معاملہ تو اصلاً، ایں سعادت بزورِ بازو نیست کا ہے۔ ہاں اتنی بات ہم ضرور محسوس کرتے ہیں کہ قدرت بھی یہ ملکہ ایسے ہی نقادوں کو ودیعت کرتی ہے جنھیں وہ کسی انسانی تہذیب کی صورت گری، اس کی معنویت کی تشکیل و تعمیر یا پھر اس تہذیب کی قلبِ ماہیت کا ہنر سکھا کر بھیجتی ہے۔ بلاشبہ سلیم احمد ہماری تاریخِ ادب و تہذیب کا ایسا ہی ایک نام ہے۔

آج تو نہیں ملتا اور چھور دریا کا

آج تو نہیں ملتا اور چھور دریا کا

تو بھی آ کے ساحل پر دیکھ زور دریا کا

میرا شور غرقابی ختم ہوگیا آخر

اور رہ گیا باقی صرف شور دریا کا

میرے جرم سادہ پر تشنگی بھی ہنستی ہے

ایک گھونٹ پانی پر میں ہوں چور دریا کا

مور اور بھنور دونوں محو رقص رہتے ہیں

یہ بھنور ہے جنگل کا وہ ہے مور دریا کا