• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگران حکومت نے دوبارہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے مہنگائی کی ایک نئی لہر کو جنم د یا ہے، جس کے نتیجے میں ملک کی ایکسپورٹ بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ پیٹرولیم لیوی بڑھ کر60روپے فی لیٹر ہوچکی ہے۔پاکستان میں اس وقت بجلی فی یو نٹ 52روپےہے۔بھارت میں یہی یونٹ 14روپے جبکہ بنگلہ دیش میں 18روپے ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ وفاقی نگران حکومت مسئلے کا حقیقت پسندی سے جائزہ لے۔بجلی چوری، لائن لاسز،سرکاری افسروں کو فراہم کی جانے والی مفت بجلی اور مختلف اداروں کی طرف سے بِلوں کی عدم ادائیگی پر بھی فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ بجلی کے بِلوں پر جنرل سیلز ٹیکس کے خاتمے سے بھی عوام کو فوری ریلیف دیا جا سکتا ہے۔نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو بجلی کے بلوں میں ظالمانہ اضافہ اور ہر طرح کے ناجائز ٹیکس فوراً ختم کردینے چاہئیں تاکہ لوگوں کو ریلیف مل سکے۔ پی ٹی آئی ہو یا پھر پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں، ساری”اسٹیٹس کو“ کی حامی ہیں۔ نگران حکومت نے ڈالر کو نیچے لانے اور ذخیرہ اندوزی کو کنٹرول کرنے کے لیے حالیہ کچھ اقدامات کیے ہیں لیکن یہ ناکافی ہیں۔ پاکستانی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے مستقل بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ کرپٹ عناصر سے نجات حاصل کی جائے۔اس وقت مہنگائی ایک عام آدمی اور متوسط طبقے کے لئے بھی بھیانک شکل اختیار کر چکی ہے۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی اپیل پر بھی بجلی کے بلوں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور مہنگائی میں ہوشربا اضافے کے خلاف لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آبا د،سیالکوٹ، حافظ آباد، قصور، ساہیوال، میاں چنوں، چنیوٹ، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ناروال، شیخوپورہ،ننکانہ، اوکاڑہ سمیت پورے ملک میں مکمل شڑڈاون ہڑتال کی گی۔مارکیٹیں اور تمام کاروباری مراکز بند رہے۔ تاجر برادری،صنعت کار،پرائیویٹ اسکولز اور کالجز ایسوسی ایشنز،علما ء کرام اوروکلاء برادری کی جانب سے ہڑتال کی مکمل حمایت کی گئی تھی۔مرکزی شاہراہوں پر ہڑتالی کیمپس لگائے گے،جن میں مہنگائی کے ستائے عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

گزشتہ چھ ماہ کے دوران ادویات کی قیمتوں میں بھی 70فیصد اضافہ قابل مذمت ہے۔ بلڈ پریشر، انسولین سمیت دیگر جان بچانے والی ادویات مارکیٹ سے غائب ہیں۔اگر کہیں دستیاب ہیں بھی تومیڈیکل اسٹورز من مانی قیمت وصول کر رہے ہیں۔لگتا ہے کہ کسی قسم کا کوئی حکومتی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔عوام خوار ہو رہے ہیں۔سولہ ماہ پی ڈی ایم کی حکومت اور اب نگران حکومت کے دور میں ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی ہر چیز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔اشیائے خورو نوش کی قیمتیں بھی 47فیصد تک مہنگی ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے غریب طبقہ عملاً ختم اور متوسط طبقہ بھی شدید پریشان دکھائی دیتا ہے۔آئی ایم ایف کے شکنجے سے نجات حاصل نہ کی گئی تو پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ مہنگا ملک بن جائے گا۔ لوگوں کی قوت خرید مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولتیں اور انسانی اعضاء کی پیوندکار ی کا گرتا ہوا معیار بھی باعث تشویش اور لمحہ فکریہ ہے۔حکومتی عدم توجہ سے سرکاری اسپتالوں میں پیوندکاری کے آپریشن نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے مریض پرائیویٹ اسپتالوں سے پیوندکاری کروانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں صوبے بھر میں جگر، گردے، کارنیا اور بون میرو سمیت 44ہزار پیوندکاری کے آپریشن ہوئے جن میں سے صرف 40فیصد سرکاری اسپتالوں میں ہوئے، جبکہ 60فیصد افراد پرائیویٹ اسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور تھے۔ حکومت عوام سے ہر چیز پر ٹیکس وصول کرتی ہے اس لئے عوام کو صحت سمیت دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی حکومت کا اولین فرض ہے۔مگر بدقسمتی سے اب تک جو بھی حکومت بر سر اقتدار آئی اس نے عوام کے بنیادی مسائل کو نظر انداز کیا ہے۔اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کے بعد فی کلو چینی 200 روپے تک پہنچ گئی ہے جبکہ آٹا 180 سے 200 روپے میں فروخت ہونے لگا۔ اب نگران حکومت کی کوششوں سے چینی کی قیمت میں معمولی کمی آئی ہے۔محسوس ہوتا ہے کہ حکومت قیمتوں پر کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔ چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی بڑی وجہ چینی کی ہمسایہ ملک اسمگلنگ ہے اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو چینی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ حکومت عوام کے مسائل میں کمی نہیں کر سکتی تو مشکلات میں اضافہ بھی نہ کرے اور آئین و قانون کے مطابق انتخابات کروا کے منتخب حکومت کو موقع دیا جائے۔ پاکستان مزید کسی قسم کے انتشار اور افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق اگست میں مہنگائی کی شرح 27.38فیصد رہی۔ ایک سال میں آٹا 99.6اور چائے 94.5فیصد مہنگی ہوئی جبکہ سالانہ بنیادوں پر چینی 70.6، مرغی67.5، چاول 66.8فیصد مہنگے ہوئے۔سالانہ بنیادوں پر گندم 64فیصد، آلو 59.7، گندم کی مصنوعات 59فیصد مہنگی ہوئیں اور ایک سال میں گیس چارجز میں 62.8اضافہ ہوا۔ گھریلو سامان 40.3فیصد، گاڑیوں کے آلات 4.6 اور تعمیراتی سامان 26.5فیصد مہنگا ہوا جبکہ بجلی چارجز میں 8.24فیصد اضافہ ہوا۔عوام کا حکومتی پالیسیوں پر اعتماد ختم ہو چکا ہے جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کے 9ہزار ارب روپے بینکوں سے باہر پڑے رہے۔جس کی وجہ سے ڈالر اور سونے پر سٹے بازی جاری رہی۔

تازہ ترین