عمر مارئی جیسی لوک کہانیاں آپ کو کئی ایک ممالک کے لوک ادب میں پڑھنے کو ملیں گی۔ اس نوعیت کی کہانیوں پرصوفی شعرا نے شاعری کی ہے۔ ان کی شاعری بڑے بڑے نامور گائیکوں نے گاکر سنائی ہے۔ معتقد اشخاص نے ان کہانیوں کو انتہائی متبرک درجہ دے دیا ہے۔ ان کو یقین کامل ہے کہ اس طرح کی کہانیاں مخلوق کو اپنے خالق کے قریب لے جاتی ہیں۔یہ سوچ کسی ایک ملک، ایک قبیلے،ایک معاشرے، ایک عقیدے کے لوگوں کی نہیں ہے۔ اس حوالے سے مختلف عقیدوں سے وابستہ لوگ کچھ حوالوں سے ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔ ایسے ممالک اور معاشرے ایک دوسرے کے پڑوسی ہوتے ہیں۔ اگر پڑوسی نہیں ہوتے تو کسی اور وجہ سے مثلاً کاروبار اور لین دین کے حوالے سے ان کے آپس میں قریبی مراسم ہوتے ہیں۔ ان کے رسم ورواج ، بولیاں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ مختلف عقائد سے وابستہ ہونے کے باوجود ملتی جلتی ثقافت،تہذیب وتمدن کی بناپر ان کے قصے کہانیوں کے لب ولہجہ اور مفہوم میں واضح مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ فی الحال ہم عمر مارئی کی کہانی کو بنیاد بنا کر اس گتھی کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔گتھیاں سلجھانا ہمارا کام نہیں ہے۔
ہم گتھیوں کے حوالے سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ لوگ مذاہب اور عقائد میں بٹے ہوئے ہیں۔ مگر حیران کن حقیقت ہے کہ عقائد میں بٹے ہوئے لوگ جب ایک ہی وطن کے باسی ہوتے ہیں، اور صدیوں سے ایک ساتھ رہتے ہوئے چلے آرہے ہیں تب وہ ایک دوسرے کے تہذیب وتمدن میں، لاشعوری طور پر تحلیل کرتے رہتے ہیں۔ عقائد کو علیحدہ کرکے دیکھا جائے توان کی بیشتر کہانیاں ایک دوسرے کی صدائے بازگشت لگتی ہیں عمر مارئی جیسی کہانیوں میں مفہوم اور مقصد تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے، مگر کچھ کہانیوں کا تانا بانا قدرے مختلف ہوتا ہے۔ مگر مقصد ایک جیسا ہوتا ہے۔ مارئی کو عمرا غوا کرکے لے جاتا ہے۔ اس کے بعد مارئی یامارئی جیسی لڑکیوں کا کسی حیلے سے صحیح سلامت گھر لوٹ آنے کو بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر مکمل کہانی کھڑی رہتی ہے۔ باندی لڑکی کو جابر کے قبضے سے چھڑانے کے لئے، مختلف کہانیوں میں مختلف کردار اپنا کردار منصبی ادا کرتے ہوئے جابر سے مدمقابل ہوتے ہیں اور باندی عورت کو چھڑا کر لے آتے ہیں۔ مختلف کہانیوں میں مختلف کردار اپنا فریضہ پورا کرتے ہیں اور باندی کو آزادی دلواتے ہیں۔ کسی کہانی میں ایسے کردار جیسے باندی عورت کا بھائی کسی کہانی میں منگیتر کسی کہانی میں شوہر اور کسی کہانی میں وہ کردار خاتون کاچاہنے والا ادا کرتا ہے۔ عمر کے قبضے سے چھڑانے کے لئےکوئی مرد کردار منظر عام پر نہیں آتا۔ اشارتاً لگتا ہے کہ مارئی اپنے دیہات میں کسی نوجوان سے محبت کرتی تھی۔ روحانی طور پر اس کی ہوگئی تھی۔ مگرمارئی کو عمر کی قید سے چھڑانے کے لئے اس شخص کا کسی قسم کا کوئی کارنامہ قابل ستائش دکھائی نہیں دیتا۔ مارئی نے اپنے بل بوتے پر خو کو عمر کی قید سے آزاد کروایا تھا۔
اسی نوعیت کی دوسرے کسی عقیدے کی کہانی میں راکشش ایک دیوتا کی بیوی کو اغوا کرکے لے جاتا ہے۔ اسے اپنی باندی بناکر اپنے پاس رکھتا ہے۔ شوہر ایک زبردست معرکہ کے بعد بیوی کو راکشش کے قبضے سے آزادی دلواتا ہے اور راکشش کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ مگر عمر مارئی کے قصے میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی لڑائی لڑی نہیں جاتی۔ مارئی دنیا بھر کی نعمتوں کو ٹھکرا دیتی ہے۔ عمر کی بیوی بننے کے بعد رانی بن کر راج کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ مارئی کے کردار کی عظمت دیکھ کر عمر بے انتہا متاثر ہوتا ہے۔ مارئی کے سر پر اجرک ڈال کر، اسے عزت اور احترام کے ساتھ گائوں والوں کے پاس چھوڑ آتا ہے۔ اسی طرح دیوتا بہت بڑی جنگ جیتنے اور راکشش کو مار ڈالنے کے بعد اپنی بیوی کو ساتھ لے کر اپنے وطن لوٹ آتا ہے۔ ان کہانیوں کا اختتام اغوا کی گئی خاتون کے گھر واپس لوٹ آنے پر نہیں ہوتا۔ ان خواتین کو معاشرے کے رسم ورواج کے مطابق اگنی پریکشا سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگنی پریکشا کا مطلب ہے دہکتے ہوئے انگاروں پر ننگے پیر چلنا۔یہ ثابت کرنے کے لئےکہ اغوا ہوجانے کے بعد بے رحم جابر نے اسے چھوا تک نہیں، اور یہ کہ وہ پاک دامن ہے، مظلوم عورت کو دہکتے ہوئے انگاروں پر برہنا پا چلنا پڑتا تھا۔ معاشرے کے بزرگوں کا قول تھا کہ پاکدامن عورت کو دہکتے ہوئے انگارے ضرر نہیں پہنچاتے۔ اسے جلاتے نہیں۔ اس کے برعکس جب داغدار عورت کو دہکتے ہوئے انگاروں پر چلنا پڑتا ہے تب دہکتے ہوئے انگارے اسے جلا کر بھسم کردیتے ہیں۔ رسم ورواج کے مطابق اگنی پریکشا مارئی سے لی گئی تھی، اور دیوتا کی بیاہتا سے بھی لی گئی تھی۔یہاں میں آپ سب کی توجہ ایک اہم نکتہ کی طرف دلوانا چاہتا ہوں۔ میں آپ سب کے ساتھ مل کر اس ناروا اورمنطق کے منافی رواج کے بارے میں بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
ایک بے بس عورت اغوا ہوجاتی ہے۔ طاقتور لوگ اسے اٹھاکر لے جاتے ہیں۔ وہ جب تک بے رحم لوگوں کی قید میں ہوتی ہے،ان کے رحم وکرم پرہوتی ہے۔وہ ظالم جتنا اسے اجاڑنا چاہتے ہیں اسے اجاڑ دیتے ہیں۔ معاشرے کے بزرگوں سے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ایک بے بس عورت جب بااثر لوگوں کے ہاتھوں تباہ ہوتی رہتی ہے، تب ستم گر ماحول میں اسے ملنے والی ذلت کی سزا خود اس بے بس عورت کوکیوں کردی جاسکتی ہے، اور کس قانون کے تحت؟ وحشیوں کی جفاکشی میں ایک بے بس عورت کس طرح خود کو فنا ہونے سے بچا سکتی ہے؟ ایسے بھیانک اور اذیت ناک حبس سے زندہ بچ کر نکل آنے والی مظلوم ماں، بہن اور بیٹی سے یہ پوچھنا کہ اسیری کے دوران وحشیوں نے تجھے چھوا تو نہیں تھا؟ سراسر ظلم ہے۔ منطق کی بات ہے۔ آگ کیسے بتاسکتی ہے کہ کون گنہگار ہے اور گنہگار نہیں ہے۔ جرگوں کے دھنی کبھی اپنے سال ڈیڑھ سال کے بچے کو دہکتے ہوئے انگاروں پر چلا کرتو دیکھیں چھوٹے بچے سے بڑھ کر نیک دامن اور کون ہوسکتا ہے؟۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)