قومی احتساب بیورو (نیب) کے کیسز بحال ہونے کے بعد نیب کی ٹیم کیسز کا ریکارڈ لے کر احتساب عدالت پہنچ گئی۔
احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے کیس کی سماعت کی، جس کے دوران نیب پراسیکیوٹر سہیل عارف اور سردار مظفر پیش ہوئے۔
نیب کے کیسز سے متعلق جج محمد بشیر اور نیب پراسیکیوٹرز کے درمیان ابتدائی سماعت پر مکالمہ ہوا۔
جج محمد بشیر نے نیب پراسیکیوٹرز کو نیب کیسز کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ہدایت کی۔
جج محمد بشیر نے نیب پراسیکیوٹرز سے کہا کہ پرائیویٹ، پبلک آفس ہولڈرز، سرکاری ملازمین کے کیسز کی نوعیت مختلف ہے، آپ نے بتانا ہے کہ کون سا کیس سن سکتے ہیں اور کون سا دائرہ اختیار میں نہیں۔
احتساب عدالت نے رجسٹرار کو 1 بجے تک کیسز کے ریکارڈ کا جائزہ لینے کی ہدایت کر دی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ہدایت کی کہ 1 بجے تک نیب کیسز کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔
’’آج تو ٹرک بھر کر نیب کیسز کا ریکارڈ آ رہا ہے‘‘
اس سے قبل آج سماعت شروع ہوئی تو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کہا تھا کہ آج تو ٹرک بھر کر نیب کیسز کا ریکارڈ آ رہا ہے۔
احتساب عدالت کے رجسٹرار آفس نے نیب کیسز کی فہرست احتساب عدالت کو بھجوائی تھی، جسے دیکھ کر احتساب عدالت نمبر 1 کے جج محمد بشیر نے یہ بات کہی تھی۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے احتساب عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ کچھ دیر میں کیسز کا ریکارڈ پیش کر دیں گے۔
واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے کیسز بحال ہونے کے بعد احتساب عدالتوں کو مختلف صورتِ حال کا سامنا ہے۔
نیب کیسز بحال ہونے کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت میں آج تمام نیب کیسز کا ریکارڈ پیش کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر 2 اور 3 کے اسٹاف کو واپس ڈیوٹی پر بلا لیا گیا ہے۔
احتساب عدالت 2 اور 3 کے ججز نہ ہونے پر اسٹاف دیگر عدالتوں میں تعینات کر دیا گیا تھا۔
احتساب عدالت نمبر 2 اور 3 کے نئے ججز بھی تعینات کیے جائیں گے، جبکہ فی الحال احتساب عدالت نمبر 1 میں جج محمد بشیر نیب کیسز کی سماعت کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ رواں ماہ 15 ستمبر کو سابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل آخری دن آخری کیس کا فیصلہ سنایا تھا جس میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کی کئی شقیں کالعدم قرار دے دی تھیں۔
سپریم کورٹ نے 50 کروڑ روپے کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بحال کر دیے تھے اور تمام کیسز احتساب عدالتوں میں دوبارہ مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر ملک بھر کی احتساب عدالتوں کو نیب کی جانب سے ریفرنسز واپس بھیجے جا رہے ہیں۔