ایک زمانے میں یہ سلوگن بہت مشہور ہوا تھا کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘۔ ظاہر ہے اس نعرے کا پس منظر یہی ہوگا کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت کو ابرو کے ایک اشارے سے گھر بھیج دیا جاتا تھا، اس سلسلے میں عدالتیں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ یہاں نواز شریف کی منتخب حکومت تین دفعہ گرائی گئی اور انہیں جلا وطن بھی کیا گیا۔ ووٹ کی حرمت پامال کرنے کا سلسلہ 1958ء سے شروع ہوا اور پھر وقفے وقفے کے بعد اس ڈرامے کی ریہرسل ہوتی رہی۔ ظاہر ہےاس سے ریاست کو بہت نقصان پہنچا۔ کوئی پالیسی زیادہ عمر نہ پا سکی اور اوائل جوانی ہی میں اللہ کو پیاری ہوگئی اور یوں ہم کسی مربوط نظام سے وابستہ نہ رہ سکے۔ جبکہ وہ تمام ملک ہم سے کہیں آگے نکل گئےجہاں منتخب حکومتیں اپنی طبعی عمر پوری کرتی رہیں اور ایک مربوط نظام کو آگے لے کرچلتی رہیں۔اس کا پھل وہاں کے عوام کو ملا، انہیں خوشحالی ملی، وہ شہری آزادیوں سے بہرہ ور ہوئے اور وہ اس بات پر فرحاں و شاداں ہیں کہ وہ ایک آزاد ملک کے شہری ہیں۔
بہرحال اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کسی تسلسل کی عدم موجودگی میں ہماری معیشت تباہی کے کنارے پر پہنچ چکی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار اتنی مہنگائی دیکھی ہے کہ معقول آمدنی والے لوگ بھی سخت پریشان ہیں ایک وجہ تو میں پہلے بتا چکا ہوں، دوسری وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہے جو اگر نہ کیا جاتا تو وہ سب کچھ نایاب ہو جاتا جو رو دھو کر مل تو جاتا ہے، دوسری صورت میں موجودہ صورتحال سے کہیں زیادہ خوفناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا اور اس بحران کی تیسری وجہ ان مافیا زکو نیٹ ورک میں نہ لانا ہے جو منہ زبانی سب کچھ دینے کو تیار ہوتے ہیں، مگر ٹیکس کا نام سنتے ہی دھمکیوں پر اتر آتے ہیں، بیساکھی کےسہارے کھڑی حکومتیں ان سے بلیک میل ہو جاتی ہیں اور یوں تباہی اور بربادی کا پہیہ اسی طرح چلتا رہتا ہے، اس حوالے سے میرا خیال ہے کہ عوام کو کسی سیاسی صف بندی کے بغیر اجتماعی احتجاج کرنا ہوگا اور ووٹ کو عزت دو کے ساتھ ووٹر کو عزت دو کا نعرہ بھی لگانا ہوگا۔ ووٹ کو عزت دو کی اہمیت اپنی جگہ کہ اس کے بغیر ہم ترقی یافتہ ملکوں کی مثالیں تو دیتے رہیںگے اور ان ملکوں کے ویزے کے حصول کیلئے خوار ہوتے رہیں گے مگر اس کے ساتھ اتنا ہی اہم سلوگن’’ووٹر کو عزت دو‘‘ بھی ہے اور وہ یوں کہ آپ جس طر ح بھی برسراقتدار آتے ہیں عوام کو اس سے غرض نہیں، انہیں تو آپ کے وہ عہدو پیماں یاد آتے ہیں جو آپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ان سے باندھے تھے، جب کسی تعداد کو اس کا حق نہیں ملے گا، جب تھانوں میں ان کی ’’چھتر پریڈ‘‘ ہوگی، جب کسی کی جان و مال اور عزت محفوظ نہیں ہوگی، جب وہ بے گھر رہیں گے، جب ان کی تنخواہ سے ان کے گھر کا بجٹ میل نہیں کھائے گا۔ جب ہسپتال میں دوا نہیں ملے گی اور وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے رہیں گے اور جب وی آئی پی کلچر جوں کا توں رہے گا تو نہ ووٹ کی عزت برقرار رہ سکے گی اور نہ ووٹر سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوگا۔
ہم پاکستانی وہ مسافر ہیں جن کے بارے میں غالب نے کہا ہے؎
چلتا ہوں تھوڑی دیر ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اور اس حوالے سے غلام محمد قاصر کا بھی ایک شعر سن لیں؎
ہے ذوقِ سفر ایسا اک عمر سے یاروں نے
منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلا
سو صورتحال ان دو شعروں میں پوری طرح سماگئی ہے، ہم لوگ جب راستے کا انتخاب بھی کرتے ہیں تو چلے ہوئے کار توسوں جیسے لوگوں کی اقتدا میں اور یا پھر ذات برادری کی بنیاد پر اور بھیڑ بکریوں کی طرح اس رستے پر چل پڑتے ہیں۔ ہم اپنا بہت نقصان کر بیٹھے ہیں اور اب شاید مزید کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا ہمیں پاکستان ہی نہیں،اپنی عزت بھی بحال کرناہے۔ صرف ووٹ کی نہیں ووٹر کی عزت بھی ہے۔
اور اب آخر میں اپنی ایک غزل:
سمندر بیچ دیتے ہیں، فضائیں بیچ دیتے ہیں
ہمارے پر کٹے ساری اڑانیں بیچ دیتے ہیں
یہ بیوپاری عقیدوں کے، پجاری ہیں فقط زر کے
یہ مندر، مسجدیں،گرجے، گپھائیں بیچ دیتے ہیں
ہمارے شہر کے سارے درختوں کے یہ بیری ہیں
ہمارے شہر کی تازہ ہوائیں بیچ دیتے ہیں
انہیں معلوم کیا غیرت حمیت نام ہے کس کا
یہ دھرتی بیچ دیتے ہیں، یہ مائیں بیچ دیتے ہیں
بہت سفاک لوگوں میں عطاؔ رہنا پڑا مجھ کو
جو نغمے بیچ دیتے ہیں، جو تانیں بیچ دیتے ہیں