پاکستان کے قیام سے اب تک وطن عزیز معاشی خوشحالی اور اپنے عوام کو ریلیف دینے کیلئےکوشاں ہے گزشتہ 75سال میں ہر حکومت نے چاہے وہ سول حکومت ہو یا ملٹری اپنی معاشی پالیسیاں پیش کیں اور اپنی پیش رو حکومت کی معاشی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بیک جنبش قلم مسترد کر دیا لہٰذا پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے فوائد عوام تک منتقل نہ ہو سکے لہٰذا ملک اور عوام دونوں ہی معاشی خوشحالی کے فوائد سے محروم رہے ۔ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد پہلے دس سال میں نوزائیدہ مملکت کو وسائل کی کمی اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی آبادکاری اور روزگارکی فراہمی جیسے مسائل کا سامنا رہا۔ لہٰذااس وقت معاشی خوشحالی کا خواب پورا نہ ہو سکا اور معاشی مسائل بڑھتے رہے، اس کے بعد 1965ء کی جنگ اور سیاسی تلاطم نےملک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی جانب سفر کا آغاز کیا اور آخر کار1971ء میں ملک کا مشرقی حصہ علیحدہ ہو کر ایک نئی سلطنت کے روپ میں بین الاقوامی افق پر نمایاں ہو گیا۔1971کے بعد معاشی ترقی کا سفر شروع ہوا تو اس کے ساتھ ہی معاشرے میں کرپشن نے بھی پنجے گاڑنے شروع کر دئیے اور آج پاکستانی معاشرے میں کرپشن اتنی سرایت کر گئی ہے کہ معاشی خوشحالی کے حصول کیلئے معاشی ترقی کی رفتار تھم سی گئی ہے۔ زرعی طور پر مضبوط ملک معاشی ترقی کی منازل طے نہیں کر پایا۔ جن قوموں کی معیشت کا دار ومدارزراعت پر ہوتا ہے وہ کبھی بین الاقوامی طور پر کسی دوسری قوم کی مختاج نہیں ہوتیں مگر پاکستان کی معیشت کے بارے میں تمام اقتصادی جائزے ناکام ثابت ہوئے ۔ ایک زرعی ملک جسے قدرت نے بہترین زمین، پانی اور چار موسموں سے نوازا ہے وہ اپنی معاشی خوشحالی کیلئے دوسری قوموں کا مرہون منت ہے۔ کبھی اس ملک کی شرح نمو 6فی صد ہوتی ہے اور کبھی ایک فی صد سے بھی کم ہو جاتی ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی شرح نمو 2024ء میں 1.9فی صد رہے گی جبکہ مہنگائی کی شرح 25فی صد رہنے کا امکان ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مہنگائی دنوں میں بڑھتی ہے اور دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہے ۔ ذخیرہ اندوز اپنی دولت کے بل بوتے پر اشیائے خور و نوش ذخیرہ کرتے ہیں اور پھر اپنی مرضی کی قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ یہ حکومت کی رٹ کو سر عام چیلنج کرنے والی بات ہے۔ کبھی چینی ، کبھی گندم اور کبھی ڈالر ملک کی سرحدیں پار کر جاتا ہے اور حکومت اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اب بجلی چوری کے لیے کنڈے ڈالنا یا بجلی کے میٹرز کو ٹمپر کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے اس میں بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے اہلکار ملوث ہیں ۔ جو اپنی ناجائزآمدنی کے حصول کیلئے اپنے ادارے کو کروڑوں کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لہٰذا ذخیرہ اندوزی اور کرپشن سے حاصل شدہ دولت ملکی اکانومی میں سر کولیٹ ہونے کے بجائے غیر ملکی بینکوں میں جمع ہو رہی ہے،پاکستان میں اکثر لوگوں کے پاس تھوڑی تھوڑی زمین ہے بڑے زمینداروں کے علاوہ چھوٹے کاشتکاروں کی اکثریت بڑھتی جا رہی ہےلہٰذا ضرورت اس ا مر کی ہے کہ ملک میں کارپوریٹ فارمنگ کے نظام کو موثربنایا جائے۔ تاکہ چھوٹےکاشتکارملکی غذائی ضروریات کو پورا کر سکیں،البتہ کارپوریٹ فارمنگ بھی مسئلے کا حل نہیں، اس میں اخراجات زیادہ ہونگے اور آمدن کم۔ کاشتکاروں کو سہولیات بہم پہنچا کر غذائی قلت کی کمی کوپورا کیا جا سکتا ہے۔ منافع کی ایماندارانہ تقسیم کاشتکاروں کی خوشحالی میں اضافہ کرےگی۔ جب فصل تیار ہو کر مارکیٹ میں آنے والی ہوتی ہے تو اس کا ریٹ انتہائی کم ہوتا ہے مگر جب یہ فصل مڈل مین اور ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھوں میں آتی ہے تو اس کا ریٹ بڑھ جاتا ہے اور کاشتکار منافع سے محروم رہتاہے۔اس کارٹل کو توڑنے کیلئے ملک میں تحریک امداد باہمی اور اسطرح کے دیگر ذرائع کا استعمال بلکہ موثر استعمال ضروری ہے۔جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے جن اداروں کے افراد نے قانون کی عملداری کو موثر بنانا ہوتا ہےوہ اپنے فرائض میں غفلت برتتے ہوئے نادہندگان یا ذخیرہ اندوزوں کا ساتھ دیں گے تو نظام نہیں چلے گا نظام کی موثر عمل داری ہی میں معاشی خوشحالی پنہاں ہے۔ جس دن اس قوم کے افراد نے اپنے فرائض لالچ اور خوف کے بغیر ادا کرنے شروع کر دیے اس دن سے ملک میں خوشحالی آنا شروع ہو جائے گی اور پاکستان کو کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں رہے گی۔