بھارت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ نفرت انگیزی پھیلا رہی ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم پر نظر رکھنے والے واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک ریسرچ گروپ ’ہندوتوا واچ‘ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے کے زیادہ تر واقعات میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس سے منسلک گروپ ملوث ہیں۔
یہ رپورٹ بھارت میں ہونے والے 255 ایسے واقعات پر مشتمل ہے جن میں مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے نفرت انگیز تقاریر کی گئیں اور ان میں سے تقریباً 80 فیصد واقعات بھارت کی ان ریاستوں یا علاقوں میں پیش آئے جہاں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کی حکومت ہے۔
رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 2014ء میں نریندر مودی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے بھارت میں مسلم مخالف تقاریر کا رجحان بڑھا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023ء میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے نصف سے زیادہ نفرت انگیز واقعات بی جے پی اور اس سے وابستہ گروپس جیسے کہ بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور ساکل ہندو سماج کی طرف سے ترتیب دیے گئے تھے، ان تمام گروپس کے تعلقات راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) سے ہیں جو بی جے پی کے نظریے کی بنیاد ہے۔
یہ رپورٹ اس لیے بھی قابلِ ذکر ہے کہ 2017ء میں ملک کے کرائم بیورو نے نفرت پر مبنی جرائم پر ڈیٹا اکٹھا کرنا بند کر دیا تھا اور اس کے بعد یہ پہلی رپورٹ ہےجس میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی نفرت انگیزی کو ریکارڈ کر کے سامنے لایا گیا ہے۔
’ہندوتوا واچ‘ نے سوشل میڈیا اور مختلف نیوز آؤٹ لیٹس کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کیا اور نفرت انگیز تقاریر کے واقعات کی قابلِ تصدیق ویڈیوز تلاش کرنے کے لیے ڈیٹا اسکریپنگ تیکنیک کا استعمال کیا اور پھر اس ریسرچ گروپ نے صحافیوں اور محققین کے ذریعے ان تمام واقعات کی گہرائی سے تحقیقات کیں۔
بھارت میں نفرت انگیز تقاریر کو سرکاری سطح پر بیان نہیں کیا گیا ہے اس لیے ریسرچ گروپ ’ہندوتوا واچ‘ نے اقوامِ متحدہ کی زبان میں نفرت انگیز تقریر کی تعریف بیان کی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق نفرت انگیز تقریر ایسی تقریر کو کہا جاتا ہے جس میں مذہب، نسل، قومیت جیسی صفات کی بنیاد پر کسی مخصوص گروہ کے لیے متعصبانہ یا امتیازی زبان استعمال کی جائے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی ریاست مہاراشٹر، کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان اور گجرات میں نفرت انگیز تقاریر والے اجتماعات کی سب سے زیادہ تعداد دیکھی گئی۔
رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ تقریباً 64 فیصد ایسے واقعات نے مسلمانوں کے خلاف سازشی نظریات کا پرچار کیا، 33 فیصد واقعات میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے اور 11 فیصد واقعات میں ہندوؤں کو مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے کی ترغیب دی گئی جبکہ کچھ ایسے اجتماعات میں نفرت سے بھری اور جنس پرستی پر مبنی تقاریر کی گئیں جن میں مسلمان خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔
اس رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سرکاری اہلکار بشمول چیف منسٹرز، قانون ساز اور حکمراں بی جے پی کے سینئر لیڈرز اکثر خود نفرت انگیز تقاریر کرنے میں ملوث رہے ہیں۔
دوسری جانب نئی دہلی میں بی جے پی کے ایک سینئر رکن ابھے ورما نے اس رپورٹ کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ بی جے پی مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم نہیں کرتی۔