کس مان سے ہم آپ کے دربار آئے ہیں
چشمِ کرم حضور! گنہگار آئے ہیں
لاتے بھلا ہم آپ کی خدمت میں اور کیا
لے کر کچھ اشک اور کچھ اشعار آئے ہیں
سَو خامیوں، ہزار خطائوں کے باوجود
اُمیدِ التفات میں سرکار آئے ہیں
رحمت سے سرفراز کریں گے ضرور آپ
در پر ہم اس یقین سے سرشار آئے ہیں
دیکھے ہیں ایک مرتبہ روضے کے بام و در
لیکن خیال میں وہ لگاتار آئے ہیں
منزل تک اب رسائی کا امکان ہوگیا
تھا سدِراہ نفس، اُسے مار آئے ہیں
واپس تو آگئے ہیں وہاں سے مگر شعورؔ
ہم اُس دیار پر دل و جاں وار آئے ہیں